آرمی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، سندھ بار کونسل
سندھ بار کونسل نے پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں بلز کی صدر مملکت نے منظوری نہیں دی، اس لیے وہ تاحل بل ہیں، قانون نہیں بنے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ سندھ بار کونسل نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے معاملے کو بھی چیلنج کردیا جب کہ اس سے قبل کئی دیگر درخواست گزار بھی اس کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کر چکے ہیں۔
درخواست سندھ بارکونسل کے وائس چیئرمین اظہر حسین، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی نعیم الدین قریشی اور ممبر جوڈیشل کمیشن آف پاکستان سید حیدر امام رضوی کی جانب سے مشترکہ طور پر دائر کی گئی ہے۔
سینئر وکیل صلاح الدین احمد کی جانب سے تیار کردہ یہ پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کردہ اس نوعیت کی پانچویں درخواست ہے۔
اس سے قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان جواد ایس خواجہ، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سول سوسائٹی کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی اور سابق وزیر قانون اعتزاز احسن اس طرح کی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کرچکے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے، 3 اگست کو آخری سماعت پر بینچ نے کارروائی غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی تھی۔
سندھ بار کونسل نے استدلال کیا کہ صدر مملکت نے عوامی طور پر کہا کہ انہوں نے دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان سے متفق نہیں تھے اور اپنے عملے سے کہا کہ وہ انہیں غیر مؤثر بنانے کے لیے مقررہ مدت کے اندر بغیر دستخط کے واپس بھیج دیں۔
دوسری جانب، وزارت قانون نے مؤقف اختیار کیا کہ ایوان صدر کو بل بالترتیب 2 اگست 2023 اور 8 اگست 2023 کو موصول ہوئے، صدر مملکت کو بلز موصول ہونے کے بعد 10 روز کے اندر ان کی منظوری دینے یا واپس کرنے کا اختیار ہے۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ یہاں تک کہ اگر وصولی کی تاریخ کو صدر کو حاصل مدت کا پہلا دن شمار کیا جائے تو بھی منظوری کی کم ترین مدت بالترتیب 12 اگست اور 18 اگست بنتی ہے، تاہم گزٹ نوٹی فکیشنز میں کہا گیا کہ صدر نے آرمی بل 2023 کو 11 اگست اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ بل کو 17 اگست سے منظور کر لیا۔
اس میں مزید استدلال کیا گیا کہ اس طرح ان تاریخوں پر منظوری کا تصور ممکن نہیں، صرف اسی وجہ سے مبینہ قانون سازی غیر آئینی، غلط اور نہ ہونے کے برابر ہے، اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے تحت بھی سمجھے جانے والے رضامندی کا کوئی تصور نہیں جب کہ منظوری کا باضابطہ تحریری طور پر اظہار ہونا ضروری ہے۔
درخواست میں زور دیا گیا کہ صدر، وفاق کے اتحاد کی عکاسی کرتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں کسی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اس طرح ان دونوں بلوں کے لیے واضح صدارتی منظوری کی عدم موجودگی سے پتا چلتا ہے کہ یہ قانون نہیں ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کو پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2023 اور آفیشل سیکریٹ (ترمیمی) ایکٹ 2023 کو صدارتی منظوری سے محروم قرار دینا چاہیے اور آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے تحت قانون کی نظر میں کالعدم قرار دینا چاہیے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ یا سپریم کورٹ متبادل طور پر یہ قرار دے سکتی ہے کہ یہ دونوں بلز، آئین سے متصادم ہیں کیونکہ وہ ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں سمیت عام شہریوں پر فوجی قوانین کے اطلاق اور ملٹری ٹربیونلز میں ان کے کیسز کی رسائی کی اجازت دیتے ہیں جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی مجرمانہ الزام کے تعین میں منصفانہ ٹرائل اور مناسب دفاع کا حق آرٹیکل 8 (3) میں مخصوص شق کی وجہ سے آئینی ضمانت بن گیا ہے۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے آرٹیکل 4، 10، 10 اے، 25، 175، 202 اور 203 کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عالمی معاہدوں اور کنونشن کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔