• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm

عمران ریاض کی بازیابی کیلئے آئی جی پنجاب کو 13 ستمبر تک کی مہلت

شائع September 6, 2023
— فائل فوٹو: فیس بک/عمران ریاض خان
— فائل فوٹو: فیس بک/عمران ریاض خان

لاہور ہائی کورٹ نے لاپتا اینکر پرسن عمران ریاض کو بازیاب کرنے کے لیے آئی جی پنجاب کو 13 ستمبر تک کی مہلت دے دی۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے والد کی درخواست پر سماعت کی، عمران ریاض کی جانب سے ان کے وکیل میاں علی اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت آئی جی پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران ریاض کی بازیابی میں کافی مثبت پیش رفت ہوئی ہے، آئندہ 10 سے 15 روز میں خوشخبری دیں گے، عدالت ہمیں مہلت فراہم کرے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ مزید مہلت مانگی جارہی ہے؟ جواب میں آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمیں 10 روز کی مہلت عنایت کردیں، ہم خوشخبری دیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی پیش رفت بھی ہونی چاہیے، دوران سماعت عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ ہمیں آئی جی پنجاب ایک گھنٹے کی میٹنگ کا وقت دیں۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت دی کہ آئی جی پنجاب آج شام 5 بجے عمران ریاض کے والد اور قانونی ٹیم سے ملاقات کریں۔

عمران ریاض خان گرفتاری کیس

خیال رہے کہ عمران ریاض کو 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک جاتے ہوئے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) رولز کے تحت گرفتار کر کے کینٹ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے وکیل نے بتایا تھا کہ ’اس دوران ان کے اہلِ خانہ سے ان کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تھا اور سوشل میڈیا پر کچھ افواہیں گردش کرنے لگیں تو 12 مئی کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں وکلا کے ذریعے ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی‘۔

12 مئی کو ان کی بازیابی سے متعلق درخواست پر ہونے والی سماعت میں ڈی پی او سیالکوٹ نے عدالت کو بتایا تھا کہ اینکر نے بیانِ حلفی جمع کرادیا تھا جس پر ان کی نظر بندی کے احکامات واپس لے کر جیل سے رہا کیا جاچکا ہے۔

جس پر عدالت نے پولیس کو عمران ریاض کی جیل سے رہائی کا ویڈیو ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

15 مئی کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار کو معطل کردیا تھا، جبکہ چیف جسٹس نے ایس ایچ او کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری اور ڈی پی او کو سخت کارروائی کا انتباہ دیا تھا۔

16 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

اینکر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

18 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو کل (19 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔

19 مئی کی سماعت میں پولیس کی جانب سے عمران کی گرفتاری سے متعلق ایک سی سی ٹی وی ریکارڈنگ عدالت میں چلائی گئی، جس میں انہیں جیل سے گاڑی میں لے جایا جا رہا تھا، فوٹیج میں تین گاڑیاں جیل کے باہر کھڑی تھیں اور ان میں سے ایک میں عمران ریاض کو ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

20 مئی کو عدالت نے پنجاب پولیس کو اینکرپرسن عمران ریاض خان کو 22 مئی (پیر) تک بازیاب کروا کر ہر صورت میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

22 مئی کو ہوئی سماعت میں آئی جی پنجاب نے عمران خان کے ٹھکانے سے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ساری ایجنسیوں کےافراد کے ساتھ میٹنگ کی، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھ لیا ہے، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے۔

26 مئی کو ہوئی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ تمام ایجنسیاں مل کر کام کریں اور اینکر پرسن کو بازیاب کرا کے 30 مئی کو عدالت میں پیش کریں۔

6 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض کے والد کو پنجاب پولیس کی خصوصی ورکنگ کمیٹی میں اپنے تحفظات بیان کرنے کی ہدایت کی تھی۔

14 جون کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے مبینہ طور پر لاپتا اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کو مزید دو ہفتے کی مہلت دی اور ان کے اہل خانہ کے وکیل نے کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024