• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ، میری ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ سنایا جائے گا، چیف جسٹس

شائع September 5, 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، اس سے قبل فیصلہ سنادیا جائے گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت میں جمع ہونے والی نیب رپورٹ پر ریمارکس دیے کہ ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہوگیا، نیب مقدمات واپس ہونے والے فورمز کا مستقبل کسی کومعلوم نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایسا نہیں ہے کہ مقدمات نیب سے ختم ہو کر ملزمان گھر چلے جائیں، مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کے لیے قانون کی ضرورت نہیں۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے نیب ترمیم سے فائدہ حاصل کرنے کی تردید کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم درخواست گزار کا کنڈکٹ نہیں دیکھ رہے، آپ کے کنڈکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق دیکھ رہے ہیں، قانون سازی سے مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے کے کیسز منجمد کر کے ہاتھ کھڑے کردیے گئے، کیسز منجمد ہونے سے ان لوگوں کا بھی حق متاثر ہوگا جن کے یہ پیسے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے، سزائیں تو سول افسران اور عوامی عہدیداروں کے خلاف بھی موجود ہیں، کیا کرپٹ آرمی افسر کا عوام سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسر فوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہو تو کیا نیب قانون کی زد میں آتا ہے؟

وکیل چیئرمین پی ٹی آئی خواجہ حارث بولے ہم نے فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹیکس عدم ادائیگی، ریاستی اثاثوں میں کرپشن، اسمگلنگ یا سرمایہ کی غیر قانونی منتقلی کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کیا عجیب بات نہیں ہوگی پارلیمنٹ کی ترامیم پر ریاست کہے کہ سزا کیوں کم کردی؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے درخواست گزار کا کیس ہے کہ جرم کی سزا کو بدل دیا گیا ہے، سپریم کورٹ کے پاس اگر پارلیمنٹ کی قانون سازی کو چھیڑنے کا اختیار نہیں تو اس کے ساتھ چلنا ہوگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ ماضی سے اطلاق کا قانون بنا کر جرم ختم نہیں کرسکتی، ایسے تو 1985 میں سزا پانے والا مجرم آکر کہے گا میری سزا رہی نہیں اور دوبارہ ٹرائل کرو۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آئین کی وہ کون سے شق ہے جو ماضی سے اطلاق کی قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روکتی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ قانون کا ماضی سے اطلاق ہوگا لیکن جو کیسز نمٹ گئے وہ نہیں کھلیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کیا سپریم کورٹ قوانین واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے؟چیف جسٹس نے کہا پارلیمنٹ تو بہت سپریم ہے، اگر پارلیمنٹ کو قوانین پر دوبارہ غور کی درخواست کریں تو بیچ کے وقت میں کیا ہوگا؟ اگر عدالت کو قانون میں سقم مل جائے تو کیا پارلیمنٹ کو واپس بھیجیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سقم والے قانون کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت خود بھی قانون کو دیکھ سکتی ہے اگر بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہوں، لیکن یہ بتا دیں کہ نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثرہوا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پبلک پراپرٹی میں کرپشن سے ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے، چیف جسٹس نے حارث اسٹیل کرپشن کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں نے ججز اور بیورو کریٹس کے احتساب سے متعلق پوچھا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب ازخود نوٹس نہیں لیتے۔

دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو تحریری معروضات جمع کرانےکی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، ریٹائرمنٹ سے قبل کیس کا مختصر اور بہتر فیصلہ سنائیں گے۔

واضح رہے کہ جون 2022 میں عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو (سیکنڈ امینڈمنٹ) ایکٹ 2022 کے تحت کی گئی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

حالیہ سماعتوں میں جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے معطل قانون (پریکٹس اینڈ پروسیجر) کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے پر زور دیا۔

تاہم، چیف جسٹس نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ ان کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اور یہ معاملہ کافی عرصے سے عدالت کے سامنے زیر التوا ہے۔

گزشتہ سماعت میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہےکہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم آرڈیننس (این اے او) میں غلطی نکلے لیکن مل نہیں رہی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ترمیم بعض سیاستدانوں اور ان کے خاندان کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں، تو اس کا واحد دستیاب علاج یہ ہے کہ انہیں انتخابات میں مسترد کر دیا جائے اور نیب قوانین کو بہتر بنانے کی ترامیم لانے کے لیے نئی پارلیمنٹ کا انتخاب کیا جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ انتخابات قریب ہیں، ایک ہی آپشن ہے کہ نئی پارلیمنٹ کا انتظار کیا جائے، جو قانون کا جائزہ لے اور بہتری لائے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے کام کرنے دیں، آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک جمہوریت کو چلنے دینا ہے۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا، تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024