لاہور ہائیکورٹ: پرویز الہٰی گرفتاری، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو بحفاظت گھر نہ پہنچانے پر ان کی اہلیہ کی جانب سے پولیس افسران کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست پر ڈی آئی جی آپریشنز عمران کشور، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن علی ناصر رضوی اور ایس پی (سیکیورٹی) لاہور ہائی کورٹ رانا اسلم سے جواب طلب جبکہ آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی اہلیہ قیصرہ الہٰی کی جانب سے توہین عدالت اور پرویز الہٰی کو حبس بے جا میں رکھنے کے اقدام کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت قیصرہ الہٰی کے وکیل نے کہا کہ میں پرویز الہٰی کے ساتھ پچھلی نشست پر تھا، مال روڈ پر پولیس نے ایک بار گرفتاری کوشش کی، کینال روڈ پر 300 نقاب پوش بندوں نے ہمیں روکا۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ کیا روٹ کو زیرو نہیں کرایا گیا تھا؟ وکیل نے جواب دیا کہ 40 سے 50 گاڑیاں ہمارے آگے اور پیچھے تھیں، 3 گاڑیوں نے ہمیں روکا، ہمارے گاڑی کے آگے بریک لگا دی گئی، جیسے ہی گاڑی رکی ڈی آئی جی آپریشن اترے، ڈی آئی جی عمران کشور نے خود دروازہ کھولا اور لوگوں کو اشارہ کیا گیا۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ کیا وہاں کوئی بحث بھی ہوئی؟ وکیل نے بتایا کہ میں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ کیا ان لوگوں کے پاس کوئی آرڈر تھا؟ کیا وہ لوگ پولیس وردی میں تھے؟ وکیل طاہر نصر اللہ وڑائچ نے جواب دیا کہ سارے لوگ سول کپڑوں میں تھے، یہ سارا کام ایک منٹ میں ہوا۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ انہوں نے کوئی اسلحہ استعمال نہیں کیا، ان سے پوچھا نہیں کہ تمہاری جرأت کیسے ہوئی؟ کورٹ کا آرڈر موجود ہے۔
جواب میں وکیل طاہر نصر اللہ وڑائچ نے کہا کہ لطیف کھوسہ بوڑھے آدمی ہیں، وہ کیا مزاحمت کرتے، اس پر جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے آپ کو جوان سمجھ رہے ہیں، ان ریمارکس پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
لاہور ہائی کورٹ نے 10 بجے ڈی آئی جی آپریشنز علی ناصر رضوی اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سمیت دیگر ذمہ دار افسران کو طلب کر لیا تھا، تاہم 10 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن عدالت پیش نہ ہوئے۔
ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کی جانب سے سے ڈی ایس پی شاہد اور ڈی آئی جی آپریشنز کی جانب سے ان کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے، دونوں نمائندوں نے عدالت میں بیان دیا کہ ڈی آئی جی آپریشنز اور ڈی آئی جی انویسٹی گیشن صوبے سے باہر گئے ہیں۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ وہ کس مقصد کے لیے صوبے سے باہر ہیں، آپ دونوں افسران سے 11 بجے تک پوچھ کے عدالت کو آگاہ کریں، اگر افسران آج پیش ہوتے ہیں تو صرف نوٹس جاری ہو گا، اگر کل پیش ہوئے تو شوکاز نوٹس جاری ہو گا جس کے بعد فرد جرم عائد ہو گی۔
بعد ازاں 11 بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو ڈی آئی جی سیکیورٹی کامران عادل لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
جسٹس امجد رفیق نے ڈی آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں، ڈی آئی جی سیکیورٹی نے جواب دیا کہ طلب کس کو کیا گیا اس بارے میں کنفیوژن تھی اس لیے میں حاضر ہوا ہوں۔
دریں اثنا جسٹس امجد رفیق نے ہدایت دی کہ 2 بجے تک ڈی آئی جی آپریشن، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن اور ایس پی سیکیورٹی لاہور ہائی کورٹ عدالت میں جواب جمع کرائیں۔
آئی جی پنجاب عدالت میں پیش
دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کو بھی پرویز الہٰی کو حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواست کے سلسلے میں طلب کرلیا۔
پرویز الہٰی کو حبس بے جا میں رکھنے کے خلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔
مذکورہ درخواست میں آئی جی پنجاب، سی سی پی او، پنجاب کی نگران حکومت، صوبائی ہوم سیکریٹری، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن، ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس پی ماڈل ٹاؤن کو مدعا علیہ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ مدعا علیہان کو ہدایت کی جائے کہ وہ پرویز الہٰی کو عدالت میں پیش کریں تاکہ درخواست گزار کو یہ اطمینان ہوسکے کہ ان کے شوہر غیر قانونی حراست میں نہیں ہیں۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے جانے کی صورت میں پرویز الہٰی کو رہا کیا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے پرویز الہٰی کو حبس بے بجا میں رکھنے کے خلاف ان کی اہلیہ کی مذکورہ درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی آئی جی پنجاب کو پیش ہونے کے لیے مہلت دی جائے۔
دریں اثنا عدالت نے آئی جی پنجاب، سی سی پی او سمیت تمام فریقین کو 2 بجے ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ آئی جی سمیت تمام افسران 11 بجے عدالت میں پیش ہوں، اگر آئی جی پنجاب پیش نہ ہوئے تو عدالت حکم جاری کرے گی۔
بعدازاں دوپہر 2 بجے عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب عدالت میں پیش ہوگئے، ان کے ہمراہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ آپ کو بلانے کا مقصدر حقائق کو منظر عام پر لانا ہے، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ میں اسلام آباد پولیس کا ذمہ دار نہیں ہوں، اگر میرے افسر نے توہین عدالت کی ہوگی تو میں ذمہ دار ہوں، یہ نوکری آنی جانی چیز ہے میں اس کی مکمل تحقیقات کرواؤں گا، میں پرویز الہٰی کے معاملے کی از سر نو تحقیقات کرواؤں گا۔
آئی جی پنجاب نے استدعا کی کہ مجھے تحریری جواب جمع کروانے کے لیے مہلت دی جائے، میں عدالت کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ دونوں پولیس افسران واپس آکر عدالت میں پیش ہوں گے۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ میں سوا 2 سال سے یہاں بیٹھا ہوں، مجھے آپ جانتے ہیں میرے کام کو جانتے ہیں، یہ کہنا کہ میں پرسنل ہوا ہوں، یہ افسوس کی بات ہے۔
عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ ان افسران میں سے کسی نے بتایا تھا کہ کوئی پرویز الہٰی کو ان کے پاس سے لے گیا ہے؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ جی، انہوں نے بتایا تھا اور میں نے اس حوالے سے ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کروا دی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ جب انہوں نے یہ رپورٹ کیا تو آپ نے کیا کیا؟ پرویز الہٰی اس وقت کہاں ہیں؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہمیں بالکل نہیں پتا پرویز الہٰی کہاں ہیں۔
جسٹس امجد رفیق نے استفسار کیا کہ آپ کو واقعی نہیں پتا؟ ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں بالکل نہیں پتا پرویز الہٰی کہاں ہیں، آئی جی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے جواب پر عدالت میں قہقہےگونج اٹھے۔
آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی کے حوالے سے اس وقت اسلام آباد پولیس ہی بتا سکتی ہے، جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ پرویز الہٰی کو اٹک جیل میں رکھا گیا تھا اس لیے عدالت یہ کیس سن رہی ہے۔
لطیف کھوسہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ پرویز الہٰی کا نہیں پتا آئی جی کا یہ بیان جھوٹ پر مبنی ہے، اس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ کھوسہ صاحب کی اس بات پر افسوس ہے پر ہمیں واقعی ہی نہیں پتا۔
جسٹس امجد رفیق نے ریمارکس دیے کہ آئی جی صاحب، کھوسہ صاحب نے کوئی غیر پارلیمانی لفظ استعمال نہیں کیا، یہاں کسی کو جانور کہہ دیں تو ناراض ہوجاتا ہے، شیر کہیں تو وہ خوش ہوجاتا ہے۔
دریں اثنا لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کانوٹس جاری کردیا، جسٹس امجد رفیق نے حکم دیا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک جیل سے پرویز الہٰی کو لے کر کل عدالت میں پیش ہوں۔
سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف نیب کی اپیل دائر
دوسری جانب پرویز الہٰی کی رہائی اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف نیب نے اپیل دائر کر دی، نیب نے اپنی انٹرا کورٹ اپیل میں پرویز الہٰی سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے۔
نیب اپیل میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ سنگل بینچ نے نیب کا پورا مؤقف سنے بغیر پرویز الہٰی کی رہائی کا حکم دیا، ان کی گرفتاری قانونی تھی اور وہ ریمانڈ پر تھے۔
نیب کی جانب سے مزید کہا گیا کہ سنگل بینچ نے حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا اور رہائی کا حکم جاری کر دیا، پرویز الہٰی کو کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی قانونی طور پر درست نہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ لاہور ہائی کورٹ سنگل بینچ کا پرویز الہٰی کو رہا کرنے اور کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے اور اپیل کے حتمی فیصلے تک سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرے۔
پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات
پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔
مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔
9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔
اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔
12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔
20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکےکیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔
اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔
جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔
24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔
تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔
12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔
اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
یکم ستمبر کو چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رہا کیے جانے کے بعد گھر جاتے ہوئے پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، بعدازاں 2 ستمبر کو پرویز الہٰی کو اٹک جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔