برطانیہ: معاشقہ چھپانے کیلئے 2 نوجوانوں کو قتل کرنے والی پاکستانی نژاد ٹک ٹاکر اور ماں کو عمر قید
برطانوی عدالت نے لیسٹر شائر میں جان بوجھ کر حادثے میں دو افراد کے قتل کے الزام میں پاکستانی نژاد ٹک ٹاک انفلوئنسر مہک بخاری اور اس کی والدہ انسرین بخاری کو عمر قید کی سزا سنا دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 24 سالہ مہک بخاری کو کم از کم 31 سال اور 8 ماہ قید کے ساتھ عمر قید کی سزا سنائی گئی، اس کی والدہ انسرین بخاری کو عمر قید اور کم از کم 26 سال 9 ماہ کی سزا سنائی گئی۔
یہ حادثہ گزشتہ سال لیسٹر شائر کے قریب پیش آیا تھا جس میں 21 سالہ ثاقب حسین اور ہاشم اعجازالدین ہلاک ہوگئے تھے۔
دونوں ماں اور بیٹی پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دو پاکستانی نوجوانوں ثاقب حسین اور ان کے دوست محمد ہاشم اعجاز الدین کی کار کا پیچھا کرکے انہیں روڈ حادثے کا شکار بنایا، جس سے دونوں نوجوان ہلاک ہوگئے۔
واقعے کی تفتیش کرنے والی لیسٹر شائر پولیس کے مطابق ٹک ٹاکر مہک بخاری کی والدہ 45 سالہ انسرین بخاری کا معاشقہ نوجوان ثاقب حسین سے تھا، مگر بعد ازاں ٹک ٹاکر کی والدہ تعلقات ختم کرنا چاہتی تھیں لیکن نوجوان ایسا نہیں چاہتا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوجوان کی جانب سے تعلقات ختم نہ کرنے اور شادی شدہ خاتون کو بدنام اور بلیک میل کرنے کی دھمکیاں دیے جانے کے بعد ٹک ٹاکر نے والدہ کی جانب سے مدد مانگنے پر نوجوان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ثاقت حسین اپنے دوست کے ہمراہ سفر کر رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ مہک بخاری نے ثاقب حسین کو انسرین بخاری سے ملاقات کا ’لالچ‘ دے کر ایک مقام پر بلایا اور کہا کہ وہ انہیں 3 ہزار پاؤنڈز واپس کرنا چاہتی ہیں جو انہوں نے انسرین کے ساتھ ڈیٹنگ کے دوران خرچ کیے تھے۔
استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ثاقب حسین اور ان کے دوست محمد ہاشم اعجاز الدین جب لیسٹر کے ہیملٹن میں ٹیسکو کار پارک میں ملاقات کے لیے پہنچے تو اچانک دو گاڑیوں نے حملہ کردیا، ایسا لگتا ہے کہ یہ ملاقات دونوں نوجوانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے طے کی گئی تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ٹک ٹاکر مہک بخاری اور ان کے دیگر 6 نقاب پوش ساتھیوں کے پیچھا کرنے کے بعد ثاقب حسین اپنا توازن کھو بیٹھے۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ 11 فروری 2022 کو پیش آنے والے واقعے میں ہاشم اعجاز الدین کی اے 46 ایک درخت سے جا ٹکرائی اور کار کے دو حصے ہوگئے، جس کے بعد اس میں آگ لگ گئی اور دونوں نوجوان ہلاک ہوگئے۔
انسپکٹر مارک پیرش نے کہا کہ یہ ایک بےحس اور بے رحمانہ حملہ تھا جس میں دو افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ استغاثہ نے اس قتل کو محبت، جنون اور بھتہ خوری کی کہانی قرار دیا جو کہ درست ہے، وہ اس قت کیس کو بےرحمانہ قتل کہنے میں بھی حق بجانب ہیں۔
جج نے مہک بخاری کو بتایا کہ ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر کے طور پر آپ کی تیزی سے بڑھتی شہرت نے آپ کو مکمل طور پر خود پرستی کے جنون میں مبتلا کر دیا۔
اس سے قبل عدالت نے متاثرہ خاندانوں کے بیانات بھی سنے، ہلاک نوجوان اعجازالدین کے والد سکندر حیات نے کہا کہ ان کا بیٹا ’بے گناہ‘ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ حادثے کے بعد مدعا علیہان نے ایمرجنسی سروسز کو کال کیوں نہیں کی، انہوں نے میرے بیٹے اور اس کے دوست کو جہنم کی بھٹی میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔
سکندر حسین کے اہل خانہ کی جانب سے عدالت میں پڑھے گئے ایک علیحدہ بیان میں کہا گیا کہ اپنے بیٹے کی آخری رسومات کے دوران وہ ’دو بے جان لاشیں‘ بن چکے جو کھانے پینے کے بھی قابل نہیں۔