لانگ کووڈ سے دماغی تنزلی کا بھی انکشاف
برطانیہ میں ہونے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے افراد میں دماغی تنزلی اور سانس لینے میں مشکل جیسی پیچیدگیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
کورونا سے صحب یابی کے بعد ہونے والی طبی پیچیدگیوں اور بیماریوں کو ’لانگ کووڈ‘ کو کہا جاتا ہے۔
لانگ کووڈ کی اصطلاح کورونا کے شکار ان مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو کہ صحت یابی کے بعد بھی مختلف طبی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
کورونا سے متعلق ماضی میں کی جانے والی متعدد تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ کورونا سے صحت یابی کے دو سال بعد بھی بعض افراد میں متعدد طبی پیچیدگیاں اور بیماریاں ہو سکتی ہیں۔
ماضی میں ہونےوالی مختلف تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد میں کم از کم 200 مختلف طبی شکایات یا علامات رہتی ہیں، جن میں بعض انتہائی سنگین پیچیدگیاں بھی ہوتی ہیں۔
حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک طویل تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ کورونا سے صحت یاب ہونے والے افراد میں طویل عرصے بعد بھی عام افراد کے مقابلے 80 مختلف بیماریاں اور طبی پیچیدگیاں ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
اور اب برطانوی ماہرین کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد کے دماغ اور پھیپھڑوں میں بھی بلڈ کلاٹنگ (خون جمنے کی شکایت) ہو سکتی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق برطانیہ کی تین مختلف یونیورسٹیز کے ماہرین نے 2 ہزار کے قریب ایسے افراد پر تحقیق کی جو کورونا کا شکار ہونے کے بعد ہسپتالوں میں داخل ہوئے تھے اور ماہرین نے ایک سال تک ان کی نگرانی کی۔
تحقیق کے دوران ماہرین نے رضاکاروں کے ٹیسٹ کرنے سمیت ان کی ذہنیت اور یادداشت جانچنے کے لیے متعدد سوالات بھی کیے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ کے شکار افراد کے دماغ اور پھیپھڑوں میں خون جمنے سے انہیں متعدد مسائل ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دماغ میں خون جمنے سے متاثرہ افراد کی یادداشت کمزور ہو سکتی ہے اور ان کا دماغ بھی تنزلی کا شکار بن سکتا ہے جب کہ ایسے افراد کو سانس لینے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔