ایشیا میں شدید گرمی اور درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم
دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے شدید درجہ حرارت سے ماہرین انتہائی پریشان ہیں جہاں براعظم ایشیا میں بھارت میں موسم گرما اور آسٹریلیا میں موسم سرما کے دوران شدید درجہ حرارت ریکارڈ کیے گئے جو موسمیاتی تبدیلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق یہ شدید درجہ حرارت دنیا بھر میں سائنسدانوں کی جانب سے شدید گرمی کے حوالے سے انتباہات کے عین مطابق ہے اور یہ ایک ایسے موقع پر دیکھا گیا ہے جب یونان سے کینیڈا تک عوام کو شدید گرمی کی لہر اور جنگل کی آگ کا سامنا ہے۔
دنیا کے سب سے زائد آبادی والے ملک بھارت میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک صدی قبل جب سے ریکارڈ مرتب ہونا شروع ہوئے ہیں، یہ اب تک کا اگست کا گرم ترین مہینہ ہے۔
اگست کا مہینہ عموماً مون سون میں ہی آتا ہے جہاں اس مون سون کے سیزن میں سال کی 80 فیصد بارشیں ہوتی ہیں۔
لیکن ملک میں شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں شمالی علاقوں میں آنے والے سیلاب کے باوجود مجموعی طور پر بارشوں کا تناسب کم رہا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بھارت میں اگست میں اوسطاً 161.7 ملی میٹر بارشیں ریکارڈ کی گئیں جو 2005 میں اگست میں کم ترین بارش کے سابقہ ریکارڈ سے بھی 30.1 ملی میٹر کم ہے۔
اس صورتحال کی وجہ سے ملک میں شدید گرمی کی لہر ہے اور محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ بارش کی کمی اور مون سون کا کمزور سسٹم اس کی بنیادی وجہ ہے۔
جاپان میں حکام نے جمعہ کو کہا کہ 1898 میں ریکارڈ کے آغاز کے بعد سے ملک میں اس وقت گرمی کی شدید ترین لہر جاری ہے۔
موسمیاتی ایجنسی نے کہا کہ جون سے اگست تک ملک کے شمال، مشرق اور مغرب میں درجہ حرارت اوسط سے کافی زیادہ رہا۔
اس نے مزید کہا کہ بہت سے مقامات پر نہ صرف زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بلکہ کم سے کم درجہ حرارت بھی ریکارڈ بھی بلند سطح تک پہنچ گیا۔
آسٹریلیا میں یہ موسم سرما سب سے زیادہ گرم رہا، جون سے اگست تک چلنے والے سیزن میں اوسط درجہ حرارت 16.75 ڈگری سینٹی گریڈ رہا۔
بیورو آف میٹرولوجی نے کہا کہ یہ 1996 میں قائم ہونے والے ریکارڈ سے زیادہ ہے اور 1910 میں ملک کے ریکارڈ کے آغاز کے بعد سے موسم سرما کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں نے اس سال پہلے ہی پوری دنیا میں درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے اور جولائی کرہ ارض پر اب تک کا گرم ترین مہینہ ہے۔
سائنسدان طویل عرصے سے خبردار کر رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے ہیٹ ویوز پیدا ہوتی ہیں جو زیادہ گرم، طویل اور بار بار آئیں گی۔
گرمی کی لہریں سب سے مہلک قدرتی خطرات میں سے ایک ہیں، جہاں ہر سال لاکھوں لوگ گرمی سے منسلک وجوہات سے مرتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ایئر کنڈیشننگ سمیت دیگر حربے حالات کو موافق کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
لیکن امیر جاپان میں بھی جولائی میں ہیٹ اسٹروک سے کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے تقریباً 50 ہزار کو ہنگامی طبی امداد کی ضرورت پڑی۔
جن لوگوں کو باہر کام کرنا پڑتا ہے وہ زیادہ خطرات سے دوچار ہیں، یہاں تک کہ ایک صحت مند نوجوان بھی چھ گھنٹے 35 ڈگری سینٹی گریڈ گرمی اور 100 فیصد نمی برداشت کرنے کے بعد مر جائے گا۔
اقوام متحدہ کی ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے ایک سینئر مشیر جان نیرن نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ گرمی کی لہریں بہت زیادہ خطرناک ہوتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے ’اے ایف پی‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہم یہ گلوبل وارمنگ کا سب سے تیزی سے ابھرتا ہوا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ان حالات کے حوالے سے خاصے مطمئن ہیں حالانکہ یہ مزید ابتر اور بار بار رونما ہونے والے ہیں۔