لاپتا افراد کا مسئلہ پارٹی کی انتخابی مہم کا مرکز ہوگا، اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے صدر سردار اختر مینگل نے آئندہ انتخابات ’لاپتا افراد کی بازیابی‘ کے نعرے پر لڑنے کا اعلان کردیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سردار اختر مینگل نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ہر فورم پر اٹھانے کے باوجود حکومت کی طرف سے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی طرف سے بھی جبری گمشدگی کے عالمی دن کے موقع پر منعقد ایک سیمینار میں بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ ان کا خاندان بھی جبری گمشدگی کا شکار رہا ہے، کیونکہ ان کے بڑے بھائی اسد مینگل کو 1970 کی دہائی میں فورسز نے اٹھا کر لاپتا کر دیا تھا اور بعد میں خاندان کو بتایا گیا کہ وہ نہیں رہے۔
اختر مینگل نے کہا کہ باوجود اس کے کہ اسد مینگل اب نہیں رہے، ہم اب بھی اس کے منتظر ہیں اور میں گہری نیند سے اٹھ کر اپنے بڑے بھائی کو یاد کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر ڈے، فریڈم آف پریس، خواتین کے دن سمیت دیگر قومی اور بین الاقوامی دن سرکاری سطح پر منائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی سرکاری ادارے بشمول وزارت انسانی حقوق کی طرف سے اس دن کے سلسلے میں کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاتی۔
صدر بی این پی مینگل نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ صوبائی، قومی اسمبلی سمیت سینیٹ میں بھی پیش کیا گیا لیکن ان کی بازیابی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور اس معاملے پر متعدد کمیشن بھی تشکیل دیے گئے لیکن ابھی تک ایسے ہی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے 400 افراد کو رہا کیا لیکن وہ بھی مزید 2 ہزار افراد کی جبری گمشدگی کی قیمت پر رہا ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خاندان نے جب بھی اسد مینگل کے بارے میں پوچھا تو حکام کی طرف سے یہ کہہ کر کوئی جواب نہیں دیا گیا کہ ملکی خود مختاری کو خطرہ ہے، اگر ملکی خود مختاری خون اور مردوں سے منسلک ہے تو ملک خود کا تحفظ نہیں کر سکتا۔
تربت میں نوجوان خاتون کی طرف سے خودکش دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے اختر مینگل نے کہا کہ وہ ان اقدامات کی حمایت یا توثیق نہیں کرتے، لیکن ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان لڑکی کو کس چیز نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے چچا کو جبری حراست میں رکھا گیا اور ان کے دادا کو دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے اپنے خاندان کے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھی تو انہیں بی این پی چھوڑنی ہوگی۔
اس موقع پر نیشنل پارٹی کے نائب صدر کبیر محمد شاہی نے سوال کیا کہ اگر آئین خود کا تحفظ نہیں کر سکتا تو وہ لوگوں کے تحفظ کو کیسے یقینی بنائے گا۔
کبیر محمد شاہی نے کہا کہ ہماری مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مسلسل سڑکوں پر احتجاج کرتی رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی ایک ایسا گھر نہیں جس کو لاش نہ ملی ہو یا وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے منتظر نہ ہوں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتا افراد کی منگیتر بھی ان کی منتظر ہیں اور وہ حکام سے یہ سوال کرتی ہیں کہ وہ ان کا انتظار کریں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ صرف لاپتا افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کی درخواست کر رہے ہیں، اگر ان کو ٹرائل نہیں کیا جاتا تو عدالتوں پر اربوں خرچ کرنے کا کیا مقصد؟
سمینار میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، عوامی پارٹی کے مہابت کاکا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایڈووکیٹ راہب بلیدی، ایڈووکیٹ چنگیز حئی بلوچ، ڈاکٹر شری بلوچ، بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے صدر عرفان سعید، بجڑ خان مری، مٹھا خان مری اور دیگر بھی موجود تھے۔
لاپتا افراد کے معاملے پر سیاست
بلوچستان حکومت نے اس پر ’مایوسی کا اظہار‘ کرتے ہوئے اسے ’لاپتا افراد کے معاملے پر مسلسل سیاست کرنے‘ کا نام دیا ہے۔
نگران صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتیں جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران لاپتا افراد کا معاملہ اٹھایا ہے جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار حکومت کو ٹہرا رہی ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ حکومت اس حساس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے خلاف سختی سے ہدایت کرتے ہوئے الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے اور تمام لاپتا افراد کو تلاش کرنے اور بازیاب کے لیے حکومتی عزم پر زور دیا۔
ترجمان نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے کو سیاسی جماعتوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا اور انتخابات کے دوران ایک بار پھر متنازع موضوع بنتا جا رہا ہے۔