بجلی کے اضافی بلوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری، نگران حکومت ریلیف فراہم کرنے میں تاحال ناکام
بجلی کے اضافی بلوں پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے تاہم عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے نگران حکومت تاحال کوئی بھی اقدامات اٹھانے میں ناکام رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف کی ناراضی اور عوام کے عتاب سے بچنے کی کوششوں کے دوران حکومت کو انتہائی پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں نگران سیٹ اَپ نے اس معاملے پر بے بسی کا اظہار کیا، بجلی کے بلوں کی اقساط میں ادائیگی کی تجویز بھی آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر قابل عمل تصور نہیں کی جاسکتی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں اس حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت، بجلی صارفین کے لیے ریلیف اقدامات کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور جلد ہی اس کا اعلان متوقع ہے۔
دریں اثنا اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ کابینہ نے نوٹ کیا کہ نگران سیٹ اپ صارفین کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتا لیکن یہ بلوں کی ادائیگی 4 سے 6 ماہ کی اقساط میں تقسیم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے، تاہم اس صورت میں بھی حکومت کو آئی ایم ایف سے پیشگی اجازت لینی ہوگی۔
کابینہ کے کچھ اراکین نے اس تجویز کی مخالفت کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ آنے والے مہینوں میں پاور سیکٹر میں ہدف سے کم وصولیاں آئی ایم ایف کو ناراض کر سکتی ہیں۔
یہ رائے بھی دی گئی کہ صارفین آنے والے مہینوں میں مہنگے بلوں کو 4 سے 6 اقساط کی صورت میں آسانی سے ادائیگی کر سکتے ہیں کیونکہ سردیوں میں بجلی کی کھپت بہت کم ہو جاتی ہے۔
حکومت کی جانب سے کابینہ کے اجلاس کے بعد کوئی باضابطہ بیان یا پریس ریلیز جاری نہ کیے جانے سے متعلق سوال کے جواب میں ذرائع نے کہا کہ حکومت، بل کی اقساط میں ادائیگی کے آپشن پر آئی ایم ایف کے اشارے کا انتظار کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ 2 روز قبل مرتضیٰ سولنگی نے بتایا تھا کہ بوجھ کو کم کرنے کے لیے کابینہ صرف ماہانہ اقساط میں بلوں کی ادائیگی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرے گی۔
تاہم انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے سبب بے بس ہے، گردشی قرضہ میں اضافے سے کوئی حاصل حصول نہیں ہوگا۔
دریں اثنا بجلی کے زائد بلوں پر ملک گیر احتجاج مسلسل پانچویں روز بھی جاری رہا، شہری احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، روڈ بلاک کر دیے اور بلوں کو نذر آتش کر کے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر غصے کا اظہار کیا، جماعت اسلامی نے بھی بجلی کے زائد بلوں کے خلاف 2 ستمبر (ہفتہ) کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کی تاجروں سے ملاقات
آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کی سربراہی میں وزارتی ٹیم اور تاجروں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی ایک ایکشن کمیٹی کے درمیان اجلاس کے دوران تعطل پیدا ہوگیا اور فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوسکا۔
نتیجتاً تاجروں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جمعرات (31 اگست) کو مظفرآباد ڈویژن میں بجلی کے بلوں کے مسائل سمیت دیگر عوامی مسائل کے خلاف شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال شیڈول کے مطابق کی جائے گی۔
اجلاس میں ایکشن کمیٹی کی قیادت کرنے والے مظفرآباد کے تاجروں کے منتخب صدر شوکت نواز میر نے بتایا کہ اجلاس حکومت کی خواہش پر منعقد ہوا، سرکاری وفد میں اسپیکر چوہدری لطیف اکبر اور مظفرآباد ڈویژن سے 4 وزرا شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اپنے مطالبات کا چارٹر حکومتی وفد کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ کوئی بھی یقین دہانی کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور انہیں وزیر اعظم سے بات کرنی پڑے گی، یہ بات ان کی ’بے بسی‘ کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
خیبرپختونخوا میں احتجاج
بجلی کے نرخوں میں غیر معمولی اضافے کے خلاف خیبرپختونخوا میں پشاور سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے مسلسل ساتویں روز بھی جاری رہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی احتجاجی ریلی پشاور کے چوک یادگار سے نکالی گئی جس میں مختلف علاقوں سے عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جی ٹی روڈ پر ریلی ایک بڑے جلسہ عام میں تبدیل ہو گئی، اسٹیڈیم چوک پر بجلی کے بل جلانے کے بعد مظاہرین نے شیر شاہ سوری روڈ پر مارچ بھی کیا۔
کسانوں کے رہنما ارباب جمیل کی قیادت میں ایک اور بڑا جلوس مرکزی ریلی میں شامل ہونے کے لیے چارسدہ روڈ سے پہنچا۔
شرکا نے سیاہ جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بجلی کے زائد بلوں کے خلاف نعرے درج تھے، تاجر رہنماؤں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات فوری تسلیم نہ کیے تو ملک گیر شٹر ڈاؤن کا اعلان کیا جائے گا، مقررین نے کہا کہ لوگ زائد بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے گھریلو سامان اور زیورات بیچنے پر مجبور ہیں۔