• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

نیب ترامیم کیس: جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی تجویز دے دی

شائع August 29, 2023
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کی درخواست پر ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی تجویز دے دی۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ ’گڈ ٹو سی یو‘، مجھے امید ہے ایسا کہنے پر مجھے نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سرکاری وکیل مخدوم علی خان کا مدعا تو ہم نے سمجھ لیا وہ تو اس عدالتی کارروائی پر تنقید کر رہے ہیں اوراٹارنی جنرل نے تسلیم کیا کہ قانون میں سقم ہیں اور انہوں نے وقت مانگا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں حکومت نے اپیل کا دائرہ کار بڑھایا تھا اور اٹارنی جنرل نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ سے متعلق یکم جون کو مطلع کیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل نے جون میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اسمبلی دیکھے گی، لیکن اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا دوبارہ جائزہ نہیں لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نہیں معلوم کہ موجودہ حکومت کا اس قانون سے متعلق کیا مؤقف ہے، کیا معطل شدہ قانون کو اتنی اہمیت دی جائے کہ اس کی وجہ سے تمام کیسز التوا کا شکار ہوں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے ایکٹ پر دوبارہ جائزے کے لیے دو مرتبہ وقت کیوں مانگا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل اپنی پوزیشن کے دفاع کے لیے یہاں موجود نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مبشر حسن کیس کے فیصلے میں وجوہات دی گئی ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ 8 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں سن سکتے، اگر آپ کوکوئی اعتراض ہے تو نئی درخواست دائر کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت نے یکم اور 8 جون کا فیصلہ اس لیے پڑھ کر سنایا کیونکہ حکومت نے خود تسلیم کیا کہ ناقص قانون سازی کی گئی۔

انہوں نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم سے معطل شدہ قانون سازی کے تحت کارروائی متاثر تو نہیں کی جا سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حکومت کیا چاہتی ہے اس حوالے سے معلوم نہیں، کیا حکومت چاہتی ہے کہ معطل شدہ قانون پر عمل کرکے عدالتی کام روک دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری صورت میں عدالت اپنا کام جاری رکھے اور نئی پارلیمان قانون میں ترمیم کا جائزہ لے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے مؤقف کا دفاع نہیں کروں گا، اٹارنی جنرل کا مؤقف میرے کیس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیسے اخذ کر لیا کہ قانون عدالت سے درست قرار پائے گا جبکہ حکومت خود کہتی ہے اس میں غلطیاں ہیں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتیں قوانین کالعدم قرار دینے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لیتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے کا نکتہ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹھایا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی صورت میں پہلی بار ایسا قانون بنایا گیا جو سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات میں مداخلت کر رہا تھا، پہلی دفعہ سپریم کورٹ ازخود فیصلوں کے دائرہ کار کو بڑھا دیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکلا سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر حکم امتناع کی موجودگی میں کیا اس بینچ کو یہ مقدمہ سننا چاہیے یا فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میری رائے میں فل کورٹ کو سننا چاہیے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو آف ججمنٹ کے معاملے پر حکومت نے خود معاملہ ملتوی کرنے کی درخواست کی اور ملتوی کرنے کی درخواست کا مقصد قانون میں ترمیم کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ پر حملہ ہے اور یہ آئین کی بنیادوں کے خلاف ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس وقت ان فیلڈ نہیں معطل ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں حکومت پاکستان نے خود اس کیس کو التوا میں ڈالنے کی استدعا کی، ہم یہاں آئین اور قانون کے مطابق مقدمات کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں اور کیس سننے کے لیے ہم میں سے ایک رکن کو بیرون مُلک سے واپس آنا پڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے اس کیس کو چلایا جائے، 2023 والی نیب ترامیم تو مخص ایک ریفائن کرنے کی کوشش تھی اور اصل نیب ترامیم تو 2022 میں آئی تھیں۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ آپ 2023 والی ترامیم سے متعلق بھول جائیں، چھٹیاں چل رہی ہیں ہم صرف اس کیس کے لیے واپس آئے ہیں اور آپ اپنے دلائل کو 2022 والی ترامیم تک محدود رکھیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ 8 رکنی بینچ نے قانون سازی پر حکم امتناع دے رکھا ہے، میں نے اپنے نوٹ میں 8 رکنی بینچ کے حکم امتناع پراعتراض نہیں کیا، میرا سوال صرف اتنا ہے کیا یہ کیس اسی بینچ کو سننا چاہیے یا فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے، یہ نیٹ فلیکس سیزن تھری بن گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس مقدمے کا 2022 کی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ کر دیتے ہیں جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 2023 میں چھوٹی ترامیم ہوئیں جیسا کہ مقدمہ منتقلی کے حوالے سے۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں صرف یہ بتائیں کہ 2022 والی ترامیم میں کیا کیا شامل ہوا تاکہ کیس کو ختم کریں، جس پر وکیل مخدود علی خان نے کہا کہ 2023 والی ترامیم سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی نے کوئی ترمیمی درخواست دائر نہیں کی۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ میں ان کی درستی کروا دوں گا، عدالتی حکمنامے میں موجود ہے کہ میں نے 2023 والی ترامیم کا معاملہ اُٹھایا، عدالت نے مجھے متفرق درخواست دائر کر کے اور کاپی مخالف فریق کو دینے کا کہا اور یہ میں کر چُکا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب قوانین میں ترامیم سے کچھ لوگوں کو استثنیٰ مل گیا اور خواجہ حارث کہہ رہے ہیں کہ بے نامی کا تصور بدل دیا گیا ہے۔

دلائل کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024