عمران خان کی معطل ہوئی ہے، ختم نہیں، نااہلی برقرار رہے گی، قانونی ماہرین
توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی سزا اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے معطل کرنے اور انہیں رہا کرنے کے فیصلے پر صحافی برادری اور قانونی ماہرین نے بھی رائے دی ہے۔
ماہر قانون اسد رحیم نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب آپ سزا کو معطل کرتے ہیں تو اس کا سزا پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نظر میں آپ کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے، جب آپ اپیل میں بری ہوتے ہیں تو پھر اہلیت بحال ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ جب فیصلہ جاری ہو جائے گا تو اس میں پڑھنا ہوگا کہ اس میں اہلیت اور نااہلیت کے حوالے سے کوئی بھی لکھی ہوئی ہے یا نہیں، اگر ہم اس بات کو صرف معطلی تک رکھیں تو اس کا اہلیت کے حوالے سے تعلق نہیں ہوتا۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا عدالت مکمل طور پر فیصلہ دے سکتی ہے کہ جرمانہ، سزا اور اس کے بعد نااہلی معطل کی جاتی ہیں، اس کے جواب میں بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ جی، دے تو سکتی ہے لیکن صرف اس درخواست پر فی الحال فیصلہ دیکھنے کو ملا ہے کیونکہ اپیل ابھی تک زیر التوا ہے، میرا خیال ہے جب عدالت میرٹ پر فیصلہ دے گی تو پھر اس سوال کا جواب ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ کیونکہ یہ بنیادی اصول ہے کہ جہاں سزا مختصر ہوتی ہے تو آپ اس سزا کو معطل کرنے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، یہ میرے حساب سے اس درخواست کے متعلق فیصلہ آیا ہے، جو فائنل ڈسپوزل ہے، وہ بعد میں ہوگا۔
دوسرے کسی کیس میں گرفتار نہ کرنے سے متعلق دائر درخواست پر سوال کے جواب ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں آپ نے دیکھا ہے کہ لوگوں نے بار بار ہراساں کرنے کو روکنے کے لیے اس طرح کی پٹیشنز دائر کی ہیں، اور ماضی میں عدالت نے ریلیف بھی دیا ہے، لیکن سابق وزیراعظم پر اب اتنے زیادہ کیسز درج ہو گئے ہیں کہ ان کو انفرادی طور پر بھی لڑنا ہوگا اور میرٹ پر ریلیف حاصل کرنا ہوگا اس سے پہلے کہ کوئی بلیکنٹ آرڈر آئے، گرفتاری کی حد تک ضرور یہ فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن عام طور پر اس طرح کا ریلیف نہیں دیا جاتا۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ کیا ایسا حکم جاری کی جاسکتا ہے کہ جن تمام اداروں کو عمران خان مطلوب ہیں، ان تمام اداروں کو حکم جاری کر دیا جائے کہ اب گرفتار نہیں کیا جائے گا، اس کے جواب میں اسد رحیم نے بتایا کہ اعلیٰ عدالتوں میں بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ تفتیش میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے، اور اس کو اسٹے کرنے پر بھی عدالتوں کی اب یہ پوزیشن بن گئی ہے کہ اس میں ہمیں دخل نہیں دینا چاہیے لیکن جہاں تک گرفتاری یا ضمانت کی بات ہے تو کچھ نہ کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں کہ اگر ملزم تفتیش میں دخل نہیں دے رہا، اس کے فرار ہونے کے امکانات نہیں ہیں تو پھر اس کو ضمانت دے دینی چاہیے، یہ ریلیف ممکن تو ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ جب سزا کو معطل کیا جاتا ہے تو فیصلے میں لکھا جاتا ہے کہ اگر کسی اور کیسز میں اس شخص کی ضرورت نہیں ہے تو اس کو آزاد کر دینا چاہیے، اب اگلا سوال اٹھتا ہے کہ باقی کیسز درج ہو چکے ہیں کیا ریاست کی جانب سے ایک بار پھر ان کو گرفتار کرنے کی کارروائی دیکھی جائے گی۔
کیا اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سزا معطلی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جی چیلنج کیا جاسکتا ہے لیکن عدالت عظمی کے اپنے بھی کئی فیصلے ہیں، جو اسی اصول پر مبنی ہیں کہ جہاں سزا مختصر ہو تو سزا کو معطل کیا جاسکتا ہے، انہی عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی روشنی میں سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا، اس آرڈر کو چیلنج تو کیا جاسکتا ہے، ریاست حرکت میں آسکتی ہے لیکن اس کے جواب میں عدالت عظمٰی اپنے ہی ماضی کے فیصلوں کے مطابق کس طرح غور کرے گی، وہ پھر اگلا سوال بنتا ہے۔
ماہر قانون حیدر وحید نے ’ڈان نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نااہلی تب ہی معطل سمجھی جائے گی جب سزا کو ختم بھی تصور کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سزا کو معطل کیا جاتا ہے اور نااہلی برقرار رہتی ہے، نتیجتاً ملزم/سزا یافتہ کو رہا کردیا جاتا ہے لیکن ہم عموماً یہ دیکھتے ہیں کہ انہیں پھر کسی اور کیس میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سزا ختم ہونے کا الگ معنیٰ ہوتا ہے اور سزا معطل ہونا الگ معاملہ ہوتا ہے، یہ ریگولر معطلی ہے تو بظاہر سزا ہی معطل ہوگی اور اس صورت میں نااہلی برقرار رہے گی۔
سینئر قانون دان راجا خالد نے نجی چینل ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسے کیسز جن میں 3 سال سزا ہو اور کیسز کے بیک لاگ و دیگر وجوہات کی بنا پر 6 ماہ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ مشکل ہو تو یہ عدالتوں کا معمول ہے کہ سزا کو معطل کردیا جاتا ہے، لہٰذا یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ واضح رہے کہ وہ سزا یافتہ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں اور ان کی نااہلی تاحال برقرار ہے۔
قانون دان ریما عمر نے کہا کہ اگر میڈیا رپورٹس درست ہیں اور صرف عمران خان کی سزا (ختم نہیں) معطل ہوئی ہے تو وہ الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہی رہیں گے اور ذوالفقار بھٹہ کے فیصلے کے مطابق وہ ’پارٹی چیئرمین‘ بھی نہیں بن سکتے۔
صحافیوں کی آرا
قانونی ماہرین کے علاوہ صحافیوں نے بھی اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے رائے دی۔
سینئر صحافی اعزاز سید نے کہا کہ عدالت سے ریلیف مل گیا مگر عمران خان جیل میں ہی رہیں گے۔
صحافی حسن ایوب خان نے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ضمانت پر رہائی کا حکم ہے اور عمران خان آج بھی توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ اور نااہل ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ دیگر مقدمات میں گرفتاری ہوچکی ہے اور مزید مقدمات میں بھی گرفتاریاں ہونی ہیں۔