• KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:17pm Asr 4:08pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:25pm
  • ISB: Zuhr 11:53am Asr 3:26pm

وزارت توانائی نے بجلی کے زائد بلوں کے مسئلے پر تجاویز کو حتمی شکل دےدی، نگران وزیراطلاعات

کراچی میں تاجروں نے احتجاجاً بجلی کے بل جلادیے—فوٹو: اے ایف پی
کراچی میں تاجروں نے احتجاجاً بجلی کے بل جلادیے—فوٹو: اے ایف پی
بٹگرام میں شہریوں کا بجلی کے زائد بلوں کے خلاف احتجاج — فوٹو: ہمایوں دلاور
بٹگرام میں شہریوں کا بجلی کے زائد بلوں کے خلاف احتجاج — فوٹو: ہمایوں دلاور
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

نگران وفاقی وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ وفاقی وزارت توانائی نے ملک میں جاری بجلی کے بلوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تجاویز کو حتمی شکل دے دی ہے جو کابینہ میں پیش کی جائیں گی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں نگران وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ’وزارت توانائی میں بجلی کے بلوں کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جہاں وزارت توانائی نے بجلی کے بلوں کے مسئلے پر تجاویز کو حتمی شکل دے دی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’وزارت توانائی کی یہ تجاویز کل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی جائیں گی اور حتمی فیصلہ کابینہ کے اجلاس میں کیا جائے گا‘۔

نگران وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’وزارت توانائی کی ان تجاویز اور فیصلوں کی منظوری دینے کی مجاز صرف وفاقی کابینہ ہے، اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ تجاویز اور فیصلے منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیے جائیں گے‘۔

سرکاری خبر ایجنسی ’اے پی پی‘ کے مطابق نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو جو بل موصول ہوئے ہیں وہ جولائی کے ہیں جبکہ نگران حکومت نے 17 اگست کو حلف اٹھایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عوام کا غصہ جائز ہے لیکن احتجاج کے بجائے ہمیں اس مسئلے کے حل کی طرف جانا چاہیے، اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ بجلی کے بلوں میں اضافے کا ذمہ دار کون ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ عوام کو ریلیف دینے پر ہے، ہم ذمہ دار آئینی نگران حکومت ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اس مسئلے کا نوٹس نہ لیں، کل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس مسئلے پر بات ہوگی اور امید ہے عوام کو ریلیف ملے گا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ نگران وزیراعظم نے دو روز پہلے بجلی کے بلوں میں اضافے کا نوٹس لیا اور آج بھی بجلی کے بلوں کے حوالے سے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں رہتے ہوئے لوگوں کو کیا ریلیف دیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجوہات سے بھی لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے، ملک میں پہلے ہی سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہے، ہم اسے کم کرنا چاہتے ہیں، اس بحث میں نہیں جانا چاہتے کہ کون ذمہ دار ہے۔

نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمیں تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابات یقینی، پرامن اور منصفانہ بنانے ہیں۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عوام کا غصہ جائز ہے لیکن احتجاج کے بجائے ہمیں اس مسئلے کے حل کی طرف جانا چاہیے، ہمیں پرامن احتجاج اور پرتشدد احتجاج کا فرق سمجھنا ہوگا۔

مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عوام ڈسکوز کے ملازمین پر تشدد کرنے کے بجائے اس مسئلے کے حل کی طرف آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کی مدت کا تعین الیکشن کمیشن کو کرنا ہے، الیکشن کمیشن نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل-51 کے تحت انتخابات کے حوالے سے پورا نظام الاوقات اپنی ویب سائیٹ پر جاری کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ پر پرامن، شفاف، منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات یقینی بنائیں گے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔

واضح رہے کہ ٹیرف میں نمایاں اضافے کے سبب بجلی کے زائد بلوں کے خلاف عوام ہفتے سے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، جس کے نتیجے میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مسئلے پر مشاورت کے لیے اتوار کو ’ہنگامی‘ اجلاس طلب کیا تھا۔

گزشتہ روز ہونے والے اجلاس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا تاہم وزیراعظم ہاؤس نے بتایا تھا کہ آج مشاورت کا دوسرا دور ہوگا۔

وزیر اطلاعات و نشریات مرتضٰی سولنگی نے اس حوالے سے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ بجلی کے حوالے سے آج (پیر) سارا دن اجلاس جاری رہے گا اور صارفین کو کچھ ریلیف فراہم کیا جائے گا۔

نگران وزیر نے بتایا کہ ہمارے پاس کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بنیادی سرپلس کے درمیان عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بہت محدود گنجائش ہے لیکن ہم اس حوالے سے کچھ کریں گے۔

مرتضٰی سولنگی نے کہا تھا کہ نگران وزیراعظم بجلی صارفین کی مشکلات کم کرنے کے لیے متعدد آپشنز پر غور کر رہے ہیں، تاہم کوئی حتمی فیصلہ ہونے تک میڈیا کو تفصیلات نہیں بتا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ غریب افراد بجلی کے بھاری بل ادا کریں جبکہ اشرافیہ اور مختلف اداروں کے افسران مفت بجلی حاصل کریں۔

مختلف شہروں میں احتجاج جاری

حکومتی اجلاس سے قبل ملک بھر میں لوگ بجلی کے زائد بلوں کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔

ڈان نیوز کے مطابق بہاولنگر، لیہ اور لاہور میں لوگوں نے مظاہرہ کیا گیا۔

پشاور میں شہریوں نے کوہاٹ روڈ کو بلاک کردیا، ان کا کہنا تھا کہ بجلی بہت مہنگی ہوچکی ہے اور حتیٰ کہ انہیں کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ بھی برداشت کرنا پڑتی ہے، مظاہرین نے ٹائرز نذرآتش بھی کیے اور پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پاسکو) کے خلاف نعرے بازی کی۔

چارسدہ میں بھی احتجاج کیا گیا اور مظاہرین نے فاروق اعظم چوک کو بلاک کردیا اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے خلاف نعرے بازی کی۔

احتجاج میں شامل ایک شخص نے بتایا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں غریب کی کمر توڑ دی ہے، لوگ مزید ٹیکس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔

بٹگرام میں تاجر یونین کے صدر کی کال پر شہریوں نے قراقرم ہائی وے بلاک کردی، مظاہرین نے ختم نبوت چوک پر شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا اور بجلی کے زائد بل بھیجنے پر حکومت مخالف نعرے لگائے۔

تاجر یونین کے صدر عبدالغفار دیشانی نے بتایا کہ لوگ بجلی کے بلوں میں مزید ٹیکسز قبول نہیں کرسکتے کیونکہ وہ پہلے ہی استطاعت سے زیادہ ادائیگی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت خود کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور اپنی نااہلی چھپا کر صارفین پر بوجھ ڈال رہی ہے۔

تاجر رہنما نے کہا کہ لوگ وہ ٹیکسز ادا کر رہے ہیں جو ان پر عائد نہیں ہوتے، ان کا کہنا تھا کہ نئے ٹیکسز کا بوجھ ان کے کاروبار کو مفلوج کر دے گا۔

راولپنڈی میں اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (آئیسکو) کے دفاتر کے باہر مظاہرہ کیا گیا، شہروں نے بلوں کو جلا دیا اور بکرا منڈی گرڈ اسٹیشن کا گھیراؤ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

ایک شخص نے کہا کہ وہ ٹیکسز کے نام پر ہمارا خون چوس رہے ہیں، احتجاج کرنے والے ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ہم بل کی ادائیگی کریں گے اور نہ ہی بجلی منقطع کرنے دیں گے۔

’حکومت عجلت میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گی‘

نگران وزیراعظم کی زیرِ صدارت گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ واپڈا / ڈسکوز کے ملازمین کو ایک ارب روپے کی بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے جبکہ ایک عام شہری 42 روپے فی یونٹ ادا کر رہا ہے۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں انوار الحق کاکڑ کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہم عجلت میں کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک کو نقصان پہنچے، ہم ایسے اقدامات اٹھائیں گے جس سے قومی خزانے پر مزید بوجھ نہ پڑے اور صارفین کو سہولت ملے۔

نگران وزیراعظم نے کہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ لوگ مشکلات کا سامنا کریں اور اعلیٰ سطح کے افسران اور وزیر اعظم مفت بجلی استعمال کرتے رہیں، جن کی ادائیگی عوام کے ٹیکسز سے ہوتی ہے۔

انہوں نے متعلقہ حکام اور وزارتوں کو ہدایت دی تھیں کہ جن افسران کو مفت بجلی فراہم کی جاتی ہے، ان کی تفصیلات فراہم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں عام آدمی کی نمائندگی کرتا ہوں لہٰذا وزیرِ اعظم ہاؤس اور پاک سیکریٹریٹ میں بجلی کا خرچہ کم سے کم کیا جائے اور اگر میرے کمرے کا اے سی بند کرنا پڑے تو بے شک بند کر دیں۔

نگران وزیر اعظم نے مزید ہدایت کی تھی کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بجلی چوری کی روک تھام کا روڈ میپ پیش کریں اور بجلی کے شعبے کی اصلاحات اور قلیل، وسط اور طویل مدتی پلان جلد از جلد پیش کیا جائے۔

انہوں نے ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا کہ نگران حکومت اپنے مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے جلد از جلد عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کرے گی

کارٹون

کارٹون : 18 نومبر 2024
کارٹون : 17 نومبر 2024