فرانس کے اسکولوں میں عبایا پہننے پر پابندی عائد
فرانسیسی حکام نے اسکولوں میں عبایا پہننے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اسے فرانس کے سخت سیکولر قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فرانس کے وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے ’ٹی ایف ون‘ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اسکولوں میں عبایا پہننا اب ممکن نہیں ہو گا، اور کہا کہ 4 ستمبر سے ملک بھر میں کلاسز کے آغاز پر قومی سطح پر اسکولوں کے سربراہان کو واضح ہدایات جاری کر دیں گے۔
یہ اقدامات فرانس کے اسکولوں میں عبایا پہننے کے حوالے سے کئی ماہ کی بحث کے بعد کیا گیا ہے، جہاں کافی عرصے سے خواتین کے اسلامی حجاب پہننے پر پابندی عائد ہے۔
دائیں اور انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں نے پابندی عائد کرنے پر زور دیا تھا، اس حوالے سے بائیں بازو کا کہنا تھا کہ شہریوں کی آزادی پامال ہو گی۔
رپورٹس ہیں کہ اسکولوں میں عبایا پہننے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس مسئلے پر والدین اور اساتذہ میں تناؤ کی صورتحال ہے۔
عبایا کو مذہبی قرار دیتے ہوئے گیبریل اٹل نے بتایا کہ سیکولرزم کا مطلب ہے کہ وہ خود کو اسکول کے ذریعے آزاد کریں، اور کہا کہ اس کا مقصد اس سیکولر حرمت کی طرف جمہوریہ کی مزاحمت کو جانچنا ہے جو اسکول کو تشکیل دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کلاس میں داخل ہوں تو طلبہ کو دیکھ کر ان کے مذہب کی شناخت کرنے کے قابل نہیں ہونا چاہیے۔
مارچ 2024 کے قانون کے مطابق اسکول میں ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد ہے، جس سے کسی مذہب کے ساتھ وابستگی ظاہر ہو، اس میں بڑی صلیبیں، یہودی ٹوپی اور اسلامی اسکارف شامل ہیں۔
ہیڈ اسکارف کے برعکس، عبایا، بیگی لباس جو معمولی لباس پر اسلامی عقائد کے مطابق پہنا جاتا ہے، کو اب تک پابندی کا سامنا نہیں کیا تھا۔
وزارت تعلیم نے گزشتہ برس نومبر میں اس مسئلے پر سرکلر جاری کیا تھا۔
ملا جلا ردعمل
سابق وزیر تعلیم پاپ این ڈیایے نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ لباس کی لمبائی کو واضح کرنے کے لیے کیٹلاگ شائع کیا جائے۔
تاہم یونین لیڈر برونو بابکی وکز نے گیبریل اٹل کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا۔
ہیڈ ٹیچرز کی نمائندگی کرنے والی یونین این پی ڈی این۔ یو ان ایس اے کے جنرل سیکریٹری برونو بابکی وکز نے بتایا کہ قبل ازیں ہدایات واضح نہیں تھیں لیکن اب ہیں اور ہم اسے خوش آمدید کرتے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت سے تعلق رکھنے والی دائیں بازو کی کلیمینٹائن اوٹین نے فیصلے کی مذمت کی اور اسے ’کپڑوں سے متعلق پالیسی‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ گیبریل اٹل کا اعلان ’غیر آئینی‘ اور سیکولر فرانس کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ حکومت کی جانب سے ’مسلمانوں کو رد‘ کرنے کی علامت ہے۔