• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

بجلی کے زائد بلوں پر عوام کا غصہ، نگران وزیراعظم نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا

شائع August 26, 2023
—  فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

ملک بھرکے مختلف شہروں میں عوام نے بجلی کے غیرمعمولی بلوں پر شدید مایوسی اور غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہروں اور اضافی ٹیکسز کم نہ کرنے کی صورت میں سول نافرمانی کی مہم چلانے کی دھمکی دے دی ہے۔

عوام کے سخت ردعمل کے سبب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے ہوشربا بلوں کے معاملے پر کل (اتوار) وزیراعظم ہاؤس میں ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ بجلی کے بھاری بِلوں کے معاملے پر میں نے کل وزیر اعظم ہاؤس میں ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں وزارت بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جائے گی اور صارفین کو بجلی کے بِلوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔

ڈان نیوز ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ایک شخص نے حکومت کی طرف سے عائد کیے گئے ٹیکسوں کو ’سراسر ظلم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ اپنا پورا بجلی کا بل ادا کر دے گا تب تک وہ بوڑھا ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ بلز اتنے زیادہ ہیں کہ ہم بچوں کی اسکول کی فیس ادا کرنے نہیں کر پا رہے، اگر کوئی شخص کرائے کے مکان میں رہتا ہے تو اسے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ بجلی کا بل بھرے کا گھر کا کرایہ ادا کرے۔

راولپنڈی

راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف بڑی تعداد میں لوگوں نے احتجاج کیا، انہوں نے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جبکہ بجلی کمپنی کے خلاف نعرے بازی بھی کر رہے تھے۔

مظاہرے میں شامل ایک شخص نے بتایا کہ ہمارے بل دگنے ہو چکے ہیں، میرے پاس اس وقت بل موجود نہیں ہے لیکن اس مہینے ہمارا بل 84 ہزار روپے آیا ہے، جب میں نے اپنے بیٹے کو اسے ٹھیک کروانے بھیجا، انہوں نے اسے ایڈجسٹ کر کے 54 ہزار روپے کر دیا، اگر آپ آئی ایم ایف کے مطالبے پر اضافہ کررہے ہیں، یہ پھر بھی غلط ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے کوئی نوٹی فکیشن نہیں آیا اور یہ واپڈا اور تمام (تقسیم کار کمپنیاں) اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کررہے ہیں۔

احتجاج میں شامل ایک اور ناراض شخص نے بتایا کہ ہمارا اگلہ قدم یہ ہوگا کہ تاجر برادری کی جانب سے ملک بھر میں کراچی سے پشاور تک ہڑتال کی جائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ متعدد مظاہرین نے انہیں بتایا کہ اگر ٹیکس واپس نہ لیا گیا تو وہ اسلام آباد کی طرف بڑھیں گے اور سول نافرمانی کی مہم شروع کریں گے۔

اسلام آباد

وفاقی دارالحکومت کے بظاہر ایک ناراض رہائشی نے ڈان نیوز ٹی وی کو بتایا کہ وہ کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مہینے آنے والا 38 ہزار کا بل مشکلات کے باوجود ادا کیا، اور اب یہ 48 ہزار کا آیا ہے، ہم جی سکتے ہیں نہ مر سکتے ہیں، حکومت نے ہم سے ساری خوشیاں چھین لی ہیں۔

قبل ازیں گزشتہ روز اسلام آباد الیکٹرک کمپنی (آئیسکو) نے پولیس چیف کو خط لکھ کر شہر کے مختلف علاقوں میں بجلی صارفین کی جانب سے احتجاج کے دوران نقصان پہنچانے کے خوف سے اپنے عملے اور جائیداد کی حفاظت یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی پی او کو لکھے گئے خط میں آئیسکو کے سپرنٹنڈنٹ انجنینئر (ایس ای) نے کہا تھا کہ صارفین بجلی کے بل میں اضافے کے خلاف احتجاج کے لیے ہجوم یا گروپس کی شکل میں آئیسکو کے مختلف دفاتر کا چکر لگا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کے ملازمین اپنے کام کی انجام دہی کے دوران عدم تحفظ کا احساس کر رہے ہیں، صورت حال خطرناک ہے، جس سے امن و امان کا مسئلہ ہوسکتا ہے اور مظاہرین آئیسکو کی جائیدادیں اور تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

پشاور

موچی حمید اللہ نے بتایا کہ اس کی روزانہ کی آمدنی صرف 600 روپے ہے لیکن مجھے 16 ہزار 424 روپے کا بل بھیج دیا گیا ہے، ہمارے گھر میں چار بلب اور ایک فرج ہے، اس کا بل 6 ہزار روپے آنا چاہیے، میرے پاس اور پیسے نہیں ہیں۔

احتجاج کے خدشات پر پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے اپنے ملازمین کو ہدایت کی کہ وہ امن و امان کی صورت معمول پر آنے تک اپنی گاڑیوں پر غیرضروری طور پر سبز نمبر پلیٹ استعمال کرنے سے گریز کریں۔

لاہور

رکشہ ڈرائیور نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے میرا بل 2 ہزار سے 2 ہزار 500 روپے آتا تھا، اب مجھے 10 ہزار 300 روپے کا بل بھیج دیا گیا ہے، مجھے اسے کلیئر کرنے کہاں جانا چاہیے؟

انہوں نے بتایا کہ میں اتنا کماتا بھی نہیں ہوں، میں کیسے یہ بل ادا کروں؟ میری دیہاڑی ایک ہزار سے بارہ سو روپے ہے جس میں سے 500 روپے پیٹرول پر خرچ ہوتے ہیں جبکہ گھر کا چولھا جلانے کا خرچ 500 سے 600 روپے ہے، ہمیں کہاں جانا چاہیے؟ مہنگائی نے ہمیں تباہ کر دیا ہے، ہمارے گھر میں صرف ایک انرجی سیور بلب ہے جو پورے دن اور رات جلتا ہے۔

سماجی کارکن عمار علی جان نے ایکس (ٹوئٹر) پر اعلان کیا کہ لاہور میں بجلی کے بلوں کے خلاف مہم کل ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ملک بھر میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف اور اشرافیہ کو سالانہ 17 ارب 40 کروڑ ڈالر مالیت کی سہولیات کے خاتمے کے مطالبے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے

کراچی

کریم آباد کی مارکیٹ کے ایک دکاندار نے وضاحت کی کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کاروبار زیادہ نہیں ہے، ہر روز نئے بلز آ جاتے ہیں، ہم بل ادا کریں یا اپنے گھر کھانے پینے کا سامان لے کر جائیں، ہمارے بچے بھی بہت پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔

ڈان ڈاٹ کام کو ایک رکن اسی طرح کے تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ اس مہینے ان کے بجلی کا بل 12 ہزار روپے آیا ہے اور حکومت کو اس حوالے سے حل نکالنے پر زور دیا اور کہا کہ آئی ایم ایف کے موجودہ معاہدے کے باوجود کوئی راستہ نکالیں کیونکہ صارفین بلوں پر اضافی ٹیکسز ادا نہیں کرسکتے جبکہ دیگر اشیا کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔

کراچی میں جمعرات کو رپورٹس آئی تھیں کہ ایک مارکیٹ میں مبینہ طور پر کے-الیکٹرک کے ملازمین پر حملہ کیا گیا ہے، جس کی تصدیق بعد ازاں کے-الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی نے ٹوئٹر پر کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرائی جائے۔

کوئٹہ

کوئٹہ میں میزان چوک پر ایک مزدور نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو بتایا کہ آج کل کام کے موقع ’بہت کم‘ ہیں کیونکہ سیمنٹ اور سریا مہنگا ہو گیا ہے، انہوں نے بھی یہ سوال اٹھایا کہ انہیں بل ادا کرنا چاہیے یا اپنے گھر کھانے کا سامان لے کر جانا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ میں بہت پریشان ہوں، خدا کے واسطے مہنگائی کنٹرول کریں۔

ملتان

ملتان کے احتجاج میں شامل افراد بہت جذباتی تھے، جہاں پر مظاہرین نے اپنے بجلی کے بلوں کو گدھے پر رکھ کر ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کی طرف مارچ کیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔

کے الیکٹرک کا ردعمل

کے الیکٹرک کے ترجمان اویس رشید منشی کو ٹی وی پر نشر آڈیو بیان میں یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے حوالے سے ملک بھر میں لوگوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ پریشان اور غصے میں آسکتے ہیں، پاکستان میں بجلی کا نظام ریگولیٹڈ ماحول میں کام کرتا ہے، جو نیپرا اور وزارت توانائی کے اندر آتا ہے، کے الیکٹرک کا کام کارکردگی، منافع اور نقصان سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو کمپنی کو کوئی نفع نہیں ہوتا، کے الیکٹرک اور کسی تقسیم کار کمپنی کا قیمتیں اور ٹیکسز بڑھانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔

صورتحال

بجلی کی بڑھتی ہوئی لاگت نے بظاہر پاور کمپنیز کو کھپت کم ہونے کے نتیجے میں اضافی کیپیسٹی چارجز کا بوجھ صارفین پر منتقل کرنے کے منحوس چکر میں ڈال دیا ہے، جس کے سبب حکومت ’قیمت کے جھٹکے‘ کو کم کرنے کے لیے تین مہینے کے بجائے 6 مہینے کے لیے 146 ارب روپے سہ ماہی چارجز عائد کرنے کی اجازت طلب کرنے پر مجبور ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ صورتحال نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے اپریل تا جون 2023 کے لیے صارفین کے لیے 5.40 روپے فی یونٹ اضافی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کی حکومتی درخواست پر منعقدہ عوامی سماعت کے دوران سامنے آئی، جب پاور ڈویژن نے اپنی درخواستوں سے علیحدگی اختیار کی۔

اس میں درخواست کی گئی کہ صارفین پر تین مہینے کے لیے 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ کے بجائے 6 ماہ کے لیے 3 روپے 55 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے تاکہ ان پر جھٹکے کو کم کیا جائے جو پہلے ہی بنیادی قومی ٹیرف میں 26 فیصد بڑھانے کے اثرات سے شدید پریشان ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024