• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نگران وزیراعظم کی جانب سے تین کابینہ کمیٹیوں کی تشکیل نو آئین کی خلاف ورزی قرار

شائع August 25, 2023
رضا ربانی نے کابینہ کمیٹیوں کی تشکیل نو کو قانونی اسکیم کی خلاف ورزی قرار دیا— فائل فوٹو: ٹوئٹر
رضا ربانی نے کابینہ کمیٹیوں کی تشکیل نو کو قانونی اسکیم کی خلاف ورزی قرار دیا— فائل فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے نگران وزیراعظم کی جانب سے تین کابینہ کمیٹیوں کی تشکیل نو پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 230 کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

گزشتہ روز نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے وفاقی کابینہ کی تین اہم کمیٹیوں کی تشکیل نو کر دی تھی جس میں چینی سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز رکھنے والی کمیٹی کے ساتھ ساتھ کابینہ کمیٹی برائے توانائی اور قانون سازی کے مقدمات نمٹانے والی کمیٹی(سی سی ایل سی) شامل ہیں۔

کابینہ سیکریٹریٹ سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق قانون سازی کے مقدمات نمٹانے والی کمیٹی کی تشکیل نو کرتے ہوئے ارکان کی تعداد میں کمی کردی گئی ہے، وزیر قانون و انصاف کی زیر سربراہی قائم کمیٹی وزرائے اطلاعات، منصوبہ بندی، وزارت مذہبی امور اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے۔

گزشتہ دور حکومت میں وزیر قانون و انصاف کی زیر سربراہی قائم کمیٹی وزرائے داخلہ، آبی وسائل، بورڈ آف انویسٹمنٹ، پارلیمانی امور اور معاشی امور پر مشتمل تھی۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان اور کابینہ ڈویژن کے ساتھ ساتھ وزارت قانون و انصاف کے سیکریٹریز کو کمیٹیوں میں برقرار رکھا گیا ہے جبکہ وزیراعظم آفس کے ایک اضافی سیکریٹری کو کمیٹی میں شامل کردیا گیا ہے۔

حیران کن طور پر کمیٹی اس بات کی بھی ذمہ دار ہو گی کہ آیا وہ اس بات کی جانچ کر سکیں کہ موجودہ قوانین میں تازہ قانون سازی یا ترمیم آئینی اسکیم سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں، یہ کسی موجودہ قانون کے خلاف تو نہیں اور کیا یہ پارلیمنٹ کے مینڈیٹ میں آتی ہے اور موجودہ قوانین کے مقابلے میں تازہ قوانین اور ترمیم کے مواد کا جائزہ بھی لے گی اور اپنی سفارشات پیش کرے گی کہ کیا یہ حکومتی پالیسیوں اور آئین اور قانونی اسکیم سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔

ٹرمز آف ریفرنس کے تحت اگر سی سی ایل سی پالیسی کے نکتہ نظر سے اسپانسرنگ ڈویژن کی تجویز میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور سی سی ایل سی میٹنگ میں اسپانسر کرنے والے ڈویژن کی طرف سے اس پر اتفاق کیا جاتا ہے تو ترمیم شدہ تجویز کابینہ کے سامنے رکھی جائے گی، توثیق اور پالیسی کے امور پر اسپانسرنگ ڈویژن اور سی سی ایل سی کے درمیان اختلاف کی صورت میں دونوں کے نکتہ نظر کو کابینہ کے سامنے فیصلے کے لیے پیش کیا جائے گا۔

آج جاری کردہ ایک بیان میں سینیٹر ربانی نے کہا کہ نگران حکومت اور کابینہ کا مینڈیٹ صرف روزمرہ کے امور تک محدود ہے اور اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور اس میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کی جانچ شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کابینہ کمیٹی پانچ وفاقی وزرا اور اٹارنی جنرل پاکستان سمیت چار خصوصی ارکان پر مشتمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے چار ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرنس) کی وضاحت کی ہے جن میں سے ایک اسے حال ہی میں منظور ہونے والی قانون سازی پر نظرثانی کی ہدایت کرتا ہے کہ آیا یہ آئین کے مطابق ہے یا نہیں، یہ موجودہ قوانین سے متصادم تو نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا پارلیمنٹ انہیں منظور کرنے کی اہل تھی یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو عدلیہ کا کردار تفویض کردیا گیا اور ایک غیر منتخب حکومت پارلیمنٹ کی آئینی اہلیت پر فیصلہ سنائے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام نگران حکومت کے عزائم کے بارے میں بھی بہت سے سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024