• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

توشہ خانہ کیس: ٹرائل اور سپریم کورٹ کے درمیان اسلام آباد ہائیکورٹ سینڈوچ بن چکا، چیف جسٹس عامر فاروق

شائع August 24, 2023
سابق وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی
سابق وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی — فائل فوٹو: اے ایف پی

توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر اہم سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ ڈویژن بینچ، ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے۔

سابق وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکلا سلمان اکرم راجا، لطیف کھوسہ، بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، شعیب شاہین سمیت 2 درجن سے زائد وکلا عدالت میں پیش ہوئے جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے امجد پرویز اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔

وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ سزا معطلی کے تین گراؤنڈز ہیں، ایک تو شارٹ سینٹینس ہے، دوسرا کیس کے عدالتی اختیار کا معاملہ ہے، سیشن عدالت براہ راست الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کا اختیار نہیں رکھتی، عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے نمٹایا جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے مختلف قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تعریف کے مطابق الیکشن کمیشن چیف اور دیگر اراکین پر مشتمل ہوتا ہے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ اپنے کسی ملازم کو شکایت دائر کرنے کا اختیار دے، اس کیس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کیس میں کمیشن کی جانب سے کوئی اتھرائزیشن نہیں ہے، یہ کیس سیکریٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے اتھرائز کیا گیا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے اتھرائزیشن پر سیکریٹری الیکشن کمیشن کے دستخط ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ڈیلی گیشن اور اتھرائزیشن قانون کے مطابق نہیں ہے۔

سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت غلطیاں ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی، ہائی کورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کے لیے ٹرائل کورٹ کو بھیجی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرتے ہوئے اٹھائے گئے سوالات کا بھی جواب دے، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کیا، سیشن جج الیکشن کمیشن کی شکایت پر براہ راست سن ہی نہیں سکتا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، مجسٹریٹ سیشن کورٹ کو بھیجے گا، ہم سیشن کورٹ کی جانب سے ٹرائل کرنے کو تو چیلنج ہی نہیں کر رہے، ٹرائل سیشن کورٹ ہی کرے گی، لیکن براہ راست نہیں کر سکتی۔

دوران سماعت کمرہ عدالت میں رش کے باعث ایئر کنڈیشنرز نے کام کرنا چھوڑ دیا، گرمی کے باعث لطیف کھوسہ نے معاون وکیل کو قانونی نکات پڑھنے کے لیے بلا لیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے اے سی وینٹ کے سامنے سے وکلا کو ہٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اے سی کے وینٹ کے سامنے سے جگہ چھوڑ دیں، کچھ تو ہوا آئے گی۔

انہوں نے کہا کہ لطیف کھوسہ صاحب کو پانی پلائیں، لطیف کھوسہ کی معاون خاتون وکیل نے قانونی نکات پڑھنا شروع کر دیے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے میں خرابیاں ہی کافی ہیں کہ اس کو کالعدم قرار دے دیا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ کے اٹھائے گئے نکات کے جوابات حتمی فیصلے میں موجود ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہیں، ایڈیشنل سیشن جج صاحب نے مکمل طور پر آپ کے احکامات کو نظر انداز کیا ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے اپنے دفاع میں گواہان کی فہرست دی، عدالت نے گواہان کو غیر متعلقہ قرار دے دیا، گواہان کی فہرست کا جائزہ لیے بغیر انہوں نے فہرست مسترد کردی، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ دینے سے نہیں روکا، جب ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت ہو تو ہمیشہ ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ کس بنیاد پر ٹرائل کورٹ نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے مطابق گواہان کا تعلق انکم ٹیکس معاملات سے ہے، عدالت نے کہا کہ یہ عدالت انکم ٹیکس کا معاملہ نہیں دیکھ رہی، عدالت نے کہا وکیل دفاع گواہان کو کیس سے متعلقہ ثابت کرنے میں ناکام رہے، اس بنیاد پر ٹرائل عدالت نے گواہان کی فہرست کو مسترد کیا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ جج صاحب نے کہا گواہان آج عدالت میں بھی موجود نہیں، گواہ اس روز کراچی میں موجود تھے، عدالت نے پوچھا آپ کیوں پیش کرنا چاہتے ہیں گواہان کو؟ میرے گواہ ہیں، میں اپنے خرچے پر پیش کر رہا ہوں، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟ میرا یہ بھی اعتراض ہے کہ شکایت 120 دن کے اندر فائل ہونی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ شکایت ٹائم بارڈ ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 920 دن بعد شکایت دائر کی گئی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 4 اگست کو آپ کا آرڈر آیا، آپ نے قابل سماعت کا معاملہ ریمانڈ بیک کیا، 5 تاریخ کو میں نے آپ کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا، خواجہ حارث کے کلرک کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، خواجہ حارث نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے نام درخواست لکھی اور معاملہ بتایا، خواجہ صاحب 12 بج کر 15 منٹ پر ٹرائل کورٹ پہنچ گئے، جج صاحب نے کہا اب ضرورت نہیں، آپ آرڈر سنیں۔

انہوں نے کہا کہ 12 بج کر 30 منٹ پر جج صاحب نے شارٹ آرڈر سناتے ہوئے تین سال کی سزا سنا دی، 12 بج کر 35 منٹ پر پتا چلا لاہور پولیس گرفتار کرنے پہنچ گئی، میں کیس کے میرٹس پر نہیں جارہا، اس کی ضرورت بھی نہیں، شارٹ سینٹینس کی معطلی سے متعلق فیصلے جمع کرا دیے ہیں، آپ کہتے ہیں تو پڑھ بھی دیتا ہوں، میں نے تمام نکات پر فیصلوں کے حوالے جمع کرا دیے ہیں۔

اس کے ساتھ سردار لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہوگئے، الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کے دلائل سے قبل وکیل سلمان اکرم راجا نے روسٹرم پر آکر مختلف قوانین کے حوالے دیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ٹرائل، سیشن کورٹ ہی کرنے کا اختیار رکھتی ہے لیکن سیشن کورٹ کو مجسٹریٹ شکایت بھیجے گا، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جی بالکل، قانون طریقہ کار کے مطابق ایسا ہی ہوگا۔

سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بیرسٹر گوہر علی خان روسٹرم پر آگئے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اس شکایت میں جو سی آر پی سی کے تحت طریقہ کار ہے وہی اپنایا جائے گا، اس حوالے سے ہم نے درخواست بھی دائر کی تھی لیکن جج صاحب نے خارج کردی، اس کے خلاف ہم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فوجداری نظر ثانی کی درخواست دائر کی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ بیک کردیا، جج صاحب نے ہمیں سنے بغیر درخواست ایک بار پھر خارج کردی۔

وکیل بیرسٹر گوہر کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد عدالت عالیہ نے سماعت میں 5 منٹ کا وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے روسٹرم پر آکر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ریکارڈ کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کو 5 اگست کو سزا سنائی گئی، 8 اگست کو فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

امجد پرویز نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کیے تھے، انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ ڈویژن بینچ ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان سینڈوچ بن چکا ہے، امجد پرویز نے کہا کہ ملزم 342 کے بیان میں کہتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنا چاہتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ملزم نے مانا کہ پراسیکیوشن نے اپنا کیس ثابت کردیا اب دفاع میں گواہ پیش کرنے چاہئیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فارم ’بی‘ پر تحریر کرنے کے لیے معلومات تو ملزم نے خود دینا ہوتی ہیں، اکاؤنٹینٹ، ٹیکس کنسلٹنٹ نے خود سے تو معلومات پُر نہیں کرنا ہوتیں، یہ مس ڈیکلیریشن کا کیس ہے، سب سے پہلے اس فارم بی کا کنسیپٹ خلیفہ راشد دوم حضرت عمر فاروقؓ نے متعارف کروایا تھا، حضرت عمرؓ نے قرار دیا کہ ارباب اختیار کو اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ اپیل، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 190 کے تحت دائر کی گئی، یہ سیکشن صرف اپیل کا فورم بیان کر رہا ہے، اس سیکشن کے تحت حتمی فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی، اپیل کی نوعیت، سماعت کے طریقہ کار سے متعلق الیکشن ایکٹ کے حصہ 7 میں پورا چیپٹر موجود ہے۔

امجد پرویز نے مختلف قانونی نکات کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اپیل سننے والی عدالت کو درخواست گزار، شکایت کنندہ اور حکومت کو بھی نوٹس کرنا ہوتا ہے، تاریخ میں سزا کے خلاف اپیل میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حکومت کو نوٹس جاری نہ ہوئے ہوں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ملزم درخواست گزار ہیں، شکایت الیکشن کمیشن نے فائل کی، ریاست کو نوٹس کیوں کیے جائیں؟ امجد پرویز نے کہا کہ ملزم حکومت کی تحویل میں سزا کاٹ رہا ہے، الیکشن کمیشن کی تحویل میں نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تو مرکزی اپیل کا معاملہ نہیں ہے، یہ تو سزا معطلی کا معاملہ ہے، امجد پرویز نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس وجہ سے درخواست خارج کردیں، میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ حکومت کو نوٹس جاری ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے، حکومت کو نوٹس جاری کردیے جائیں تو حکومت آکر کیا کرے گی؟ امجد پرویز نے کہا کہ ملزم تو حکومت کی تحویل میں ہے نا، یہ قانون کا تقاضا ہے، قانون آپ کے سامنے ہے، سادہ زبان ہے، مختصر سزا پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے احکامات موجود ہیں۔

امجد پرویز نے کہا کہ ایک کیس میں ملزم کو ٹرائل کے بعد ڈھائی سال کی سزا سنائی گئی تھی، ملزم نے ہائی کورٹ میں شارٹ سینٹس کی بنیاد پر معطلی کی اپیل کی، ہائی کورٹ نے اس کی اپیل خارج کی، معاملہ سپریم کورٹ گیا۔

امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، عدالت عظمیٰ نے کہا کہ قابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمات میں بھی سزا معطل نہیں ہوسکتی، 3 سال کی سزا معطلی حق نہیں، عدالت کے استحقاق پر منحصر ہے۔

امجد پرویز نے سپریم کورٹ، لاہور اور سندھ ہائی کورٹس کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ ابھی تک نافذ العمل ہے، بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی کی گئی، نہ ہی چیلنج ہوا، فیصلوں میں سزاؤں کی مدت کو تین کیٹیگریز میں بانٹا گیا ہے، پہلی کیٹیگری 3 سال سے کم سزا کی ہے۔

امجد پرویز نے کہا کہ دوسری کیٹیگری 3 سال سے زائد اور 7 سال سے کم سزا کی ہے، تیسری کیٹیگری سات سال سے زائد یا عمر قید کی ہے، فیصلوں کے مطابق سزا معطلی کے لیے سزا کا کچھ حصہ کاٹنا ضروری ہے، جو آپ کے سامنے اپیل ہے اس کو دائر ہوئے ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا، درخواست گزار کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ سزا دی گئی ہے، ایسا نہیں کہ سزا 14 سال تھی تو 3 سال دی گئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم آج کے لیے بس کرتے ہیں، کل دوبارہ سے شروع کریں گے، چیف جسٹس نے امجد پرویز سے استفسار کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت لگے گا؟ امجد پرویز نے کہا کہ 3 گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں گا۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تین گھنٹے ضمانت کے کیس میں لگے۔

وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا کہ کل جمعہ ہے سماعت نہ رکھیں، یہ پھر خود ہی کہتے ہیں کہ چھٹی والے دن عدالت کھل گئی، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کل ڈویژن بینچ نہیں ہے لیکن ہم کیس سن لیں گے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل بروز جمعہ ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی اور درخواست کی تھی کہ مرکزی اپیل پر فیصلے تک سزا معطل کرکے رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔

گزشتہ روز عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں جن پر فی الحال مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ ملزم کو حق دفاع نہیں دیا گیا، دوسری یہ ثابت ہوئی کہ ریمانڈ آرڈر کے اگلے ہی دن سزا دے کر ملزم کو جیل بھیج دیا گیا، فی الحال ان غلطیوں پر مداخلت نہیں کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ‏توشہ خانہ کیس میں ہم آج مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے، ہائی کورٹ کل صبح اپیلوں پر سماعت کرے، آسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہو جانے کے بعد ہم مقدمہ سنیں گے۔

سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت ہائیکورٹ کے حکم تک ملتوی

دوسری جانب سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا کے خلاف سماعت ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ کا حصہ ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے علاوہ عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ابھی کیس کی سماعت چل رہی ہے، ہائی کورٹ معاملے کا حل نکال رہی ہے، یہی ہمارے نظام کی خوبصورتی ہے، ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے دیں پھر سماعت کریں گے۔

سپریم کورٹ نے جیل میں چیئرمین پی ٹی آئی کو دی جانے والی سہولیات سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے تک ملتوی کر دی۔

اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں کل عمران خان سے ملنے گیا ایک پولیس والا ڈٹ کے ساتھ بیٹھ گیا، میں نے اس سے کہا کہ بھائی یہ وکیل اور مؤکل کی گفتگو ہے آپ یہاں کیوں بیٹھے ہو۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سردار صاحب، کوئی ایسی بات نہ کریں جو ریکارڈ پر نہیں ہے، تعریف کرتا ہوں کہ ہائی کورٹ انصاف کی فراہمی کی لیے خصوصی کوشیش کر رہی ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب، یہ بتائیں کہ ہائی کورٹ میں مقدمے کا کیا فیصلہ آئے گا، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ سر میں پیش گوئی تو نہیں کر سکتا نہ ہی میں کوئی تاریخیں دینے والا سیاستدان ہوں۔

سینئر وکیل خواجہ حارث کی کیس سے علیحدگی کی خبروں کی تردید

آج سماعت سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان نے سینئر وکیل خواجہ حارث کی کیس سے مبینہ طور پر علیحدگی کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اس طرح کی خبروں کی تردید کی۔

بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ خواجہ حارث کیس سے الگ نہیں ہوئے، ان کے معاونین آتے رہتے ہیں، خواجہ حارث کی مہارت اور قابلیت سے ہم استفادہ کرتے ہیں، خواجہ حارث کا پاور آف اٹارنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں جگہ موجود ہے۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں سابق حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024