پاکستان کو سرکاری کمپنیوں کو وزارتِ خزانہ کی زیرِنگرانی رکھنے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی نمائندہ ایستھر پیریز روئیز نے کہا ہے کہ حکومت نے جس اصلاحاتی عمل پر اتفاق کیا ہے اس کے لیے پاکستان کو ریاستی انتظام میں چلنے والے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کو وزارت خزانہ کی زیرنگرانی رکھنے کی ضرورت ہے۔
ایستھر پیریز روئز نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ پہلے سے طے شدہ 2021 کے ہنگامی اصلاحاتی عمل، گورننس اور نجی شعبے کی دیگر اصلاحات پر عمل کرنا غیر ملکی سرمایہ کاری کو مستقل طور پر راغب کرنے کے لیے اہم ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان اپنے متعدد سرکاری اثاثوں کو بیرونی کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کررہا ہے۔
رواں برس مارچ میں پاکستان نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلائے جانے والے 3 بڑے ہوائی اڈوں کے آپریشنز اور زمینی اثاثوں کی آؤٹ سورسنگ کا آغاز کیا، جس کا مقصد ملک کی کمزور معیشت کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر پیدا کرنا ہے۔
جون میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے) پر عملے کی سطح کا معاہدہ ہوگیا تھا، دیوالیہ کے دہانے پر کھڑا ملک اس معاہدے کا طویل عرصے سے انتظار کر رہا تھا۔
ایستھر پیریز روئز نے بیان میں کہا کہ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ موجودہ اسٹینڈ بائی انتظامات کی پیروی کرنے کے کیا نتائج ہوں گے، جوکہ 2024 کے اوائل تک جاری رہیں گے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نئے اسٹینڈ بائی انتظامات سے تعاون یافتہ پروگرام ملکی اور بیرونی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ایک پالیسی اینکر اور کثیر جہتی اور دوطرفہ شراکت داروں کی مالی مدد کے لیے ایک فریم ورک فراہم کرے گا۔
آئی ایم ایف کے مطابق یہ پروگرام 4 اہم نکات پر توجہ مرکوز کرے گا، جس میں سال 24-2023 کے بجٹ کا نفاذ شامل ہے تاکہ پاکستان کی مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کو آسان بنایا جاسکے اور اہم سماجی اخراجات کی حفاظت کرتے ہوئے قرضوں کی پائیداری کو یقینی بنایا جاسکے۔
اس کے ساتھ بیرونی جھٹکوں کو کم کرنے اور غیر ملکی کرنسی کی قلت کو دور کرنے کے لیے مارکیٹ کی طے شدہ شرح تبادلہ کی طرف واپسی اور غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈی کا مناسب کام کرنا، ایک مناسب طور پر سخت مالیاتی پالیسی جس کا مقصد تنزلی کو کم کرنا ہے۔
مزید برآں اس کے اہداف میں ساختی اصلاحات پر پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے کی عمل داری، سرکاری اداروں کی گورننس اور موسمیاتی لچک کے حوالے سے اقدامات شامل ہیں۔