• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بلز پر دستخط کی تردید: سیاسی مخالفین کی صدر مملکت پر کڑی تنقید

شائع August 21, 2023
رانا ثنا اللہ نے صدر مملکت، ان کے سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کر دیا — فائل فوٹو: اسکریب گریب
رانا ثنا اللہ نے صدر مملکت، ان کے سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کر دیا — فائل فوٹو: اسکریب گریب

پی ٹی آئی کے مخالفین سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہ کرنے کے صدر مملکت کے حالیہ بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ان سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کی اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ عارف علوی نے انکوائری کرنے کے بجائے اہم اور حساس معاملے کو منظر عام پر لاکر اپنے عہدے کے تقدس کو مجروح کیا ہے۔

سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنااللہ نے صدر مملکت، ان کے سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ ’صدر مملکت، ان کے سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری کے علاوہ کوئی اور شخص اس معاملے کے حقائق کو نہیں جانتا،‘ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ محض ایک ٹوئٹ سے حل نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر کا ٹوئٹ پوری دنیا کے سامنے شرمندگی کا باعث بنا، صدر کا ایسا غیر ذمہ دارانہ بیان ان کے عہدے اور منصب کے شایان شان نہیں ہے۔

’2 روز بعد معافی مانگنا بددیانتی ہے‘

مسلم لیگ (ن) کے ایک اور رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس قانون کا نوٹی فکیشن 2 روز قبل جاری کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نوٹی فکیشن جاری ہونے کے 2 روز بعد معافی مانگنا بد دیانتی ہے، انہوں نے عارف علوی کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو قوانین سے متاثر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت اس وقت خاموش رہے جب پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے کئی غلط کام کیے گئے جن میں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف قوانین کا غلط استعمال اور سرکاری تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری نے کہا کہ صدر کے بیان نے ان کی دماغی صحت کے بارے میں سوالات اٹھا دیے، انہوں نے فوری طور پر عارف علوی کے ذہنی معائنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے نے بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے ان دعوؤں کی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی تقسیم اور انتشار پھیلانے پر تلی ہوئی جماعت ہے۔

نیئر بخاری نے مزید کہا کہ عارف علوی نے خود کو اپنی پارٹی کے سربراہ عمران خان کا ملازم ثابت کر کے سازش کا ارتکاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ صدر کے ٹوئٹ نے جوابات سے زیادہ سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

جامع انکوائری کا مطالبہ

پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما میاں رضا ربانی نے عارف علوی پر تنقید کیے بغیر معاملے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کی جانب سے لگائے گئے الزامات انتہائی سنگین ہیں جس کے پورے نظام پر بہت دور رس اثرات ہوں گے۔

رضا ربانی نے مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 50 کے تحت صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں، اس لیے سینیٹ کے تمام ارکان پر مشتمل کمیٹی سے معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں، صدر مملکت اور ان کے متعلقہ عملے کو سینیٹ کمیٹی کے سامنے پیش ہونا چاہیے۔

رہنما پی پی پی نے مزید کہا کہ ’اگر تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ صدر نے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا ہے تو ان کے خلاف قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے‘۔

ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کہا کہ وہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ ایوان صدر میں عارف علوی کو کس نے دھوکا دیا۔

کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی صدر کو کیسے دھوکا دے سکتا ہے، یہ وہی بتا سکتے ہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان کا مؤقف

دوسری جانب، کامران ٹیسوری کی جماعت نے اس معاملے پر اپنا مؤقف دینے کے لیے مزید وقت لینے کا فیصلہ کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ان کی جماعت سینئر قیادت سے بات چیت کے بعد کوئی باضابطہ مؤقف دے گی۔

وہ حیدرآباد میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کنور نوید جمیل کے سوئم میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ صدر مملکت کا بیان حساس معاملہ ہے، ایم کیو ایم حقائق کا جائزہ لینے کے بعد اس پر اپنا باضابطہ مؤقف سامنے لائے گی۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ایمل ولی خان نے کہا کہ صدر عارف علوی کو عہدے پر نہیں رہنا چاہیے اگر ان کا اپنے عملے پر کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت گھر جائیں، مزید شرمندگی کا باعث بننے والی کوئی اور وجہ نہ بتائیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024