جڑانوالہ: پنجاب کابینہ کی نذرِ آتش کیے گئے چرچ کے قریب منعقدہ عبادت میں شرکت
جڑانوالہ میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک درجن سے زائد گھروں اور عبادت گاہوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعے کے بعد ایک ٹوٹے ہوئے گرجا گھر کے قریب پہلی سنڈے سروس (اتوار کی عبادت) میں مسیحی برادری کے ساتھ پنجاب کی نگران کابینہ نے بھی شرکت کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور ان کی ٹیم بس کے ذریعے عیسیٰ نگری پہنچی اور مسیحی برادری کے ساتھ اے ای سی گرجا گھر میں اتوار کی عبادت میں شرکت کی۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ نے دیگر گرجا گھروں کی جلد از جلد بحالی کا اعلان کیا، انہیں بتایا گیا کہ اے سی ای چرچ کی تزئین و آرائش کی گئی تھی، یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کم از کم 94 خاندانوں کو آئندہ 48 گھنٹوں کے اندر فی خاندان 20 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا، جس سے انہیں تباہ ہونے والے اپنے گھروں کی تعمیر نو میں مدد ملے گی۔
نگراں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ پاکستان ہر پاکستانی کا ہے چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو، سکھ ہو یا ہندو، سب ایک ہیں، میں مظلوموں کے ساتھ ہوں اور ہر ظالم کو قانون کے تحت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس موقع پر انہیں فیصل آباد کی کمشنر سلوت سعید نے سرکاری اسکول میں امدادی کیمپ لگانے سمیت بے گھر خاندانوں کی بحالی کے عمل کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔
وزیراعلیٰ نے ریلیف کیمپ کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے مسیحی خاندانوں کو یقین دلایا کہ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا اور حکام کو تمام متاثرہ خاندانوں کی رجسٹریشن کرنے کی ہدایت کی۔
بعدازاں، محسن نقوی نے جامع مسجد صابری کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کی، جنہوں نے جڑانوالہ میں معمولات کی بحالی کے لیے انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر ’اطمینان‘ کا اظہار کیا۔
پریس کو جاری ایک بیان میں نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ مختلف مذاہب سے وابستگی رکھنے والے افراد کے حقوق کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، جب کہ ’غلط سلوک‘ کرنے والوں کو مثال بنایا جائے گا۔
اتوار کو ہوئے کابینہ اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے نگران وزیر اطلاعات نے کہا کہ متاثرہ برادری کو انصاف فراہم کرنے کے لیے فوری اقدامات کا فیصلہ کیا گیا، 94 مسیحی خاندانوں کو آئندہ 48 گھنٹوں میں ان کے گھروں کو پہنچے نقصانات پر 20 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس معاوضے کا مقصد ان کی مشکلات کو تیزی سے کم کرنا ہے، وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ گرجا گھروں کو فوری طور پر بحال کریں اور بقیہ گرجا گھروں کی مرمت کا کام تیز کریں‘۔
عامر میر نے یقین دلایا کہ ’اس سازش کے پیچھے اکسانے والوں کو جلد ہی بے نقاب کیا جائے گا کیونکہ صوبائی حکومت ’اقلیتی برادریوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے‘۔
اتوار کی عبادت
خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 200 مسیحی مرکزی سالویشن آرمی چرچ کے ساتھ ایک تنگ گلی میں رکھی کرسیوں پر بیٹھے تھے، اس چرچ کی صلیب ہجوم کی جانب سے اکھاڑ دیے جانے کے بعد اب بھی غائب تھی۔
29 سالہ گھریلو خاتون نوشین فرمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم ’یہاں بغیر کسی خوف کے آتے تھے لیکن آج ہمیں پولیس کی ضرورت ہے، ہم اپنے بچوں کو نہیں لائے جنہیں ہم سکھاتے ہیں کہ انہیں گرجا گھر میں آنا چاہیے‘۔
اس موقع پر درجنوں سیکورٹی اہلکار علاقے کی حفاظت کے لیے موجود تھے، ہجوم نے دعا کے لیے ہاتھ جوڑے اس دوران کچھ افراد بار بار اپنے آنسو پونچھتے رہے، بہت سے شرکا آس پاس کے شہروں سے حمایت کا اظہار کرنے آئے تھے۔
چرچ کو اتنا زیادہ نقصان پہنچا تھا کہ وہاں عبادت نہیں ہوسکتی تھی۔
32 سالہ سارہ اعجاز ایک ٹیچر ہیں، جو قریبی رشتہ داروں کے پاس رہ رہی ہیں، انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ حالیہ واقعے کے بعد سیکیورٹی کے حوالے سے ہمیں بہت سے شکوک و شبہات ہیں، ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم محفوظ ہیں یا نہیں۔
44 سالہ سیمسن سلامت نے کہا کہ سیکڑوں مسیحی اپنے مکانات میں واپس نہیں جا سکتے، گلیوں میں ٹوٹا پھوٹا سامان بکھرا ہے، یہ عمارتیں اور مکانات بحال ہو جائیں گے لیکن لڑکیوں اور بچوں کے لیے اس صدمے سے نکلنا مشکل ہو گا، وہ اس دہشت گردی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جس کا انہوں نے سامنا کیا تھا کہ انہیں اپنے ہی گھر سے بھاگنا پڑا تھا۔