• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

7 نومولود بچوں کو قتل کرنے کے الزام میں ’سیریل کلر نرس‘ مجرم قرار

شائع August 20, 2023
—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
—فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

برطانوی نرس لوسی لیٹبی کو 7 بچوں کے قتل اور دیگر 6 نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کرنے کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے، انہیں دور جدید میں برطانیہ میں بچوں کی سیریل کلر قرار دیا جارہا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 33 سالہ نرس لوسی لیٹبی نے جون 2015 سے جون 2016 کے درمیان 7 بچوں کو قتل اور دیگر 6 نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔

وہ اس وقت 24 سے 26 سال کی تھیں جب وہ کاؤنٹیس آف چیسٹر ہسپتال میں کام کر رہی تھی اور اب انہیں بچوں کی ’سیریل کلر‘ قرار دیا جارہا ہے۔

مانچسٹر کی عدالت میں لوسی لیٹبی پر 22 الزامات تھے جن میں 7 نومولود بچوں کے قتل کا الزام بھی شامل تھا۔

لوسی کے خلاف برطانوی عدالت میں 9 ماہ تک سماعت جاری رہی اور آخر کار انہیں مجرم قرار دے دیا گیا، مقدمے کا فیصلہ گزشتہ روز سنایا گیا تھا تاہم لوسی لیٹبی اور ان کے والدین عدالت میں موجود نہیں تھے۔

لوسی نے عدالت کی آخری سماعت میں آنے سے انکار کردیا تھا اور ان کی غیر موجودگی میں وہ مزید قتل کے الزامات میں مجرم قرار پائیں۔

برطانوی حکومت نے اب بچوں کی ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

قتل ہونے والے تمام بچوں کے نام اور عمر میڈیا کے سامنے ظاہر نہیں کیے گئے۔

فوٹو: سویس
فوٹو: سویس

لوسی لیٹبی کون ہیں؟

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق 33 سالہ لوسی لیٹبی وسطی انگلینڈ کے ہیرفورڈ میں پیدا ہوئی تھیں۔

انہوں نے چیسٹر یونیورسٹی سے نرسنگ کی ڈگری مکمل کی اور شہر کے کاؤنٹیس آف چیسٹر ہسپتال کےنومولود بچوں کے یونٹ میں کام کرنا شروع کیا۔

لوسی لیٹبی کیس کے بارے میں اب تک کیا جانتے ہیں؟

جنوری 2015 سے 18 ماہ کے دوران کاؤنٹیس آف چیسٹر ہسپتال کے نومولود بچوں کے یونٹ میں مرنے والے بچوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔

یہ بات سینئر ڈاکٹرز کے لیے تفتیش کا سبب بنی کیونکہ بہت سے بچے اچانک مر رہے تھے یا ان کی حالت اچانک بگڑ رہی تھی

ان واقعات کے بعد پولیس اور طبی ماہرین کو بلایا گیا، تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ تمام بچوں کے مرنے یا ان کی طبعیت بگڑنے کے دوران لوسی لیٹبی کا اہم کردار تھا۔

لوسی لیٹبی کو پہلی بار جولائی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا، الزامات ثابت نہ ہونے پر انہیں چھوڑ دیا گیا اور پھر جون 2019 اور نومبر 2020 میں اس وقت دوبارہ گرفتار کیا گیا جب ان پر جون 2015 اور جولائی 2016 کے درمیان 7 بچوں کو قتل کرنے اور مزید 10 کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

لوسی لیٹبی کو پولیس کی تحویل میں عدالت میں لے جاتے ہوئے—فوٹو: رائٹرز
لوسی لیٹبی کو پولیس کی تحویل میں عدالت میں لے جاتے ہوئے—فوٹو: رائٹرز

لوسی نے پہلی بار بچے کو کب نشانہ بنایا تھا؟

لوسی نے 2015 میں پہلی بار نومولود بچے کا قتل کیا تھا، جون 2015 میں پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش قبل از وقت آپریشن کے ذریعے ہوئی تھی اور اسے ہسپتال میں نومولود بچوں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کیا گیا۔

بچے کو اس وقت قتل کیا گیا جب بچہ مصنوعی آکسیجن کے بغیر سانس لے رہا تھا اور لوسی نے دوسری نرس کی جگہ لینے کے ایک گھنٹے بعد ڈاکٹرز کو بلایا کہ بچے کی طبعیت بگڑ رہی ہے۔

ڈاکٹرز کی تمام تر کوششوں کے باوجود بچہ زندہ نہیں بچ سکا، عدالت میں جیوری کے مطابق بچے کی خون کی شریانوں میں جان بوجھ کر ہوا کا انجیکشن لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی۔

اس کے علاوہ 2016 میں لوسی نے دو جڑواں بھائیوں کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی۔

جڑواں بچے قبل از وقت پیدا ہوئے تھے، وہ صرف چند دن کے تھے جب اپریل 2016 میں لوسی نے انہیں چند گھنٹوں کے اندر مارنے کی کوشش کی۔

جڑواں بچوں کے والدین نے میڈیا کو بتایا کہ لوسی جب بچوں کو ہوا کا انجیکشن لگا رہی تھیں تو بہت پرسکون تھیں۔

بچوں کی ماں نے بتایا کہ اس وقت لوسی کی باڈی لینگویج اور رویہ اچانک بدل گیا تھا،

بچوں کے والد نے بتایا کہ ہم پہلی بار والدین بنے تھے، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے، اس وقت کسی کو بھی لوسی لیٹبی پر شک نہیں تھا۔

لوسی نے ان دونوں کو زہر کا انجیکشن بھی دینے کی کوشش کی لیکن ڈاکٹرز نے انہیں مرنے سے بچا لیا تاہم ان بچوں میں سے ایک بچے کو دماغی طور پر نقصان پہنچا ہے۔

لوسی کا آخری شکار دو نومولود بچے تھے، دونوں کو پیدائش کے ایک ہفتے کے اندر مار دیا گیا تھا، ان میں سے ایک بچے کے جگر کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔

پروسیکیوشن سروس پاسکل جونز کا کہنا ہے کہ لوسی کے خوبصورت چہرے اور مسکراہٹ کے پیچھے بھیانک کردار چھپا ہے’۔

لوسی کا بچوں کو مارنے کا کیا طریقہ تھا؟

استغاثہ کا کہنا تھا کہ لوسی لیٹبی نے وارڈ میں موجود 17 بچوں کو نشانہ بنایا، کچھ کے بارے میں کہا گیا کہ لوسی نے انہیں زہر کا انجیکشن لگایا تھا، اور زیادہ تر کیسز میں لوسی نے بچوں کو ہوا کا انجیکشن لگایا گیا۔

لوسی کی جانب سے قتل کیے جانے والے بچوں میں سب سے چھوٹا بچہ صرف ایک دن کا تھا۔

قتل ہونے والے بچوں میں زیادہ سے زیادہ 11 ہفتے کے عمر کی بچی کو لوسی نے قتل کرنے سے پہلے 4 بار حملہ کرنے کی کوشش کی۔

استغاثہ نے بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں لوسی لیٹبی نے اس وقت بچوں کو قتل یا مارنے کی کوشش کی جب بچوں کے والدین ان کے قریب نہیں ہوتے تھے۔

عدالتی سماعت کے دوران لوسی نے اپنے اوپر لگے تمام الزامات کی تردید کردی تھی اور ہسپتال کے ڈاکٹرز کو قصوروار ٹھہرایا لیکن جیوری نے 7 بچوں کے قتل اور 7 نومولود بچوں کو قتل کرنے کی کوشش میں لوسی کو مجرم قرار دیا۔

انتہائی نگہداشت کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن بریری—فوٹو: بی بی سی
انتہائی نگہداشت کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن بریری—فوٹو: بی بی سی

’ہسپتال انتظامیہ کو لوسی کے الزامات کا معلوم تھا‘

بی بی سی کے مطابق نومولود بچوں کے یونٹ میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ ہسپتال کی انتظامیہ نے لوسی کے خلاف الزامات پر تفتیش نہیں کی اور ڈاکٹرز کو خاموش کروانے کی کوشش کی۔

انتہائی نگہداشت کے سربراہ ڈاکٹر سٹیفن بریری نے اکتوبر 2015 میں ہسپتال انتظامیہ کو لوسی کے بارے میں خبردار کر دیا تھا، اس کے باوجود لوسی کو کام کرنے دیا گیا اور اس دوران لوسی نے مزید 5 بچوں کا قتل کیا۔

لوسی کے خلاف الزامات سامنے آنے کے بعد بھی ہسپتال نے کئی ماہ تک پولیس کو اطلاع نہیں دی۔

ڈاکٹر بریری نے بی بی سی کو بتایا کہ جون 2016 میں آخری دو بچوں کی موت کے بعد انہوں نے مطالبی کیا کہ کہ لوسی کو کام سے ہٹایا جائے، لیکن ابتدائی طور پر ہسپتال کی انتظامیہ ن انکار کیا، ایک ڈاکٹر نے یہ تک کہہ دیا تھا ہم لوسی سے معافی مانگیں اور الزامات واپس لیں۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ لوسی کو ہسپتال کی حساس دستاویزات تک رسائی حاصل تھی۔

لوسی نے بچوں پر حملہ کیوں کیا؟

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ لوسی کے بچوں پر حملہ کرنے کی وجہ جاننے میں ناکام رہے ہیں۔

پولیس نے کہا کہ ان کی توجہ متاثرین کے والدین اور اہل خانہ کو جوابات فراہم کرنے پر مرکوز تھی۔

کیس کی تحقیقاتی ٹیم کی قیادت کرنے والے سپرنٹنڈنٹ کا کہنا ہے کہ ’جب تک لوسی ہمیں خود نہیں بتاتی بدقسمتی سے ہمیں نہیں لگتا کہ پولیس کو کبھی پتہ چل سکے گا کہ لوسی نے ایسا کیوں کیا۔

لوسی کیسی زندگی گزار رہی تھی؟

ڈپٹی سینئر تفتیشی افسر چیف انسپکٹر نکولا ایونز نے کہا کہ پولیس کی تفتیش کے مطابق لوسی صحت مند سماجی زندگی گزار رہی تھی، ان کے والدین بھی ہیں، ان کی زندگی میں ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی جو ہمیں غیر معمولی محسوس ہوئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کو ایسی کوئی چیز نہیں ملی جو ان کی عمر کی عورت کے لیے غیر معمولی ہو، اس سے پہلے لوسی کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔

عدالت کی سماعت میں کیا ہوا؟

گزشتہ سال اکتوبر سے نرس کے خلاف مقدمہ چلا، اس وقت ان پر الزام تھا کہ انہوں نے جون 2015 سے جون 2016 تک ایک سال میں سات نومولود بچوں کو قتل کیا اور 10 بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔

لوسی نے تمام الزامات کی تردید کی لیکن انہیں 7 بچوں کے قتل میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔

مقدمے کی سماعت 9 ماہ تک جاری رہی اور اس دوران ہوشربا انکشافات سامنے آئے، 7 خواتین اور 4 مردوں پر مشتمل جیوری نے 110 گھنٹے تک سوچ بچار بعد لوسی لیٹبی کو سزا سنائی۔

جیوری نے لوسی پر 6 نومولود بچوں سمیت 7 بچوں کو قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں بھی ان کو سزا سنائی۔

سماعت کے دوران جب ان کی گھر سے گرفتاری کی تصاویر عدالت میں دکھائی گئیں تو وہ رو پڑیں۔

لوسی لیٹبی کے قتل کے مقدمے کو برطانوی قانونی تاریخ کے طویل ترین ٹرائل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، یہ مقدمہ 10 اکتوبر 2022 کو شروع ہوا تھا جو 315 دن یا 12 ماہ کے زائد عرصے تک جاری رہا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024