کانگریس کو سائفر کے ’مبینہ متن‘ کا معاملہ بغور دیکھنا چاہیے، سابق امریکی مشیر
امریکا میں قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن نے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کو موسم گرما کی چھٹیوں سے واپس آنے پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے سے متعلق مبینہ طور پر لیک ہونے والے سائفر کے معاملے کو دیکھنا چاہیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ’وائس آف امریکا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں جان بولٹن نے کہا کہ وہ جنوبی ایشیا کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے فکرمند ہیں کیونکہ یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔
جان بولٹن ماضی میں ٹرمپ اور بش انتظامیہ میں بطور عہدیدار خدمات فراہم کرچکے ہیں، ’وائس آف امریکا‘ کو دیے گئے انٹرویو کے دوران اُن سے سوال کیا گیا کہ کیا سائفر (کے مبینہ متن) میں استعمال ہونے والی زبان محکمہ خارجہ کے کسی اہلکار کے لیے معمول کی بات ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ’دی انٹرسیپٹ‘ نیوز ویب سائٹ کی شائع کردہ رپورٹ دیکھی اور مشاہدہ کیا کہ یہ یوکرین پر بِلا اشتعال حملے کے ردعمل میں روس کے خلاف پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کے حوالے سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں حیران ہوں گا اگر یہ واقعی بالکل وہی الفاظ ہوں ہو جو انہوں نے اس میں بیان کیے،کسی بھی انتظامیہ کے تحت، لیکن خاص طور پر بائیڈن انتظامیہ کے تحت محکمہ خارجہ کی جانب سے عمران خان کو ہٹانے کا مطالبہ کرنا غیرمعمولی بات ہے۔
گزشتہ برس مارچ میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے اسلام آباد بھیجے جانے والے مبینہ سائفر میں امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیداروں، بشمول جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو اور پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے درمیان ہونے والی ملاقات کااحوال تھا۔
متن کے مطابق ڈونلڈ لو نے کہا کہ ’میرے خیال میں اگر وزیر اعظم (عمران خان) کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو امریکا کی جانب سے سب معاف کر دیا جائے گا کیونکہ دورہ روس کو صرف وزیر اعظم (عمران خان) کے ہی فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، بصورت دیگر مجھے لگتا ہے کہ ساتھ آگے چلنا مشکل ہوگا‘۔
جان بولٹن نے کہا کہ اگر سائفر کا ’دی انٹرسیپٹ‘ کی جانب سے شائع کردہ مبینہ متن سچ کے قریب بھی ہے تو یہ ایک مسئلہ ہوگا، لہذا میں امید کرتا ہوں کہ جب کانگریس ستمبر کے شروع میں موسم گرما کی چھٹیوں سے واپس آئے گی تو شاید وہ اس پر ایک نظر ڈالیں اور یہ جان سکیں کہ (دی انٹرسیپٹ کی) وہ رپورٹ کتنی درست ہے۔
’مبہم اور غیر واضح‘
ایک اور سوال کے جواب میں جان بولٹن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار نہیں جانتے کہ ان کی اسٹریٹجک ضروریات کیا ہیں، یہ پاکستان کی صورتحال سے متعلق مبہم اور غیر واضح ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر اپنے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں عمران خان کی ہر اس بات سے متفق نہیں ہوں جو انہوں نے کبھی کہی ہیں اور وہ مجھ سے متفق نہیں ہیں لیکن جب فوج اس مقام پر پہنچ جائے کہ ایک قانونی طور پر جائز سیاسی جماعت کو ختم کرنے لگے اور عمران خان جیسے منتخب رہنما کو بظاہر کسی وجہ کے بغیر جیل میں ڈال دے تو درحقیقیت وہ اپنے ہی ادارے کو غیرقانونی بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔
چند امریکی قانون سازوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ واشنگٹن کو یہ معاملہ پاکستانی حکام کے سامنے اٹھانا چاہیے، جان بولٹن نے اس مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا کہ چین، روس اور دہشت گردوں کی جانب سے اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے سے قبل بائیڈن انتظامیہ اس حوالے سے واضح مؤقف اختیار کرے۔