جڑانوالہ واقعہ: مساجد سے خطبات میں اقلیتی حقوق پر توجہ دی جائے، وزیراعلیٰ پنجاب
پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا ہے کہ جمع (آج) کے دن صوبے بھر کی مساجد سے خطبات میں اقلیتی حقوق پر توجہ دی جائے۔
محسن نقوی کا بیان فیصل آباد کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے مکانات اور گرجا گھروں کو پیش آنے والے واقعات کے بعد سامنے آیا ہے جہاں کم از کم 20 گرجا گھروں اور متعدد مکانات کو توڑ پھوڑ کرکے نذرآتش کردیا گیا۔
پولیس اور مقامی ذرائع کے مطابق تشدد اس وقت شروع ہوا جب کچھ مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ جڑانوالہ کے سینما چوک میں ایک گھر کے قریب سے قرآن پاک کے متعدد صفحات ملے ہیں، جہاں دو مسیحی بھائی رہائش پذیر تھے۔
ایک روز قبل پنجاب پولیس نے کم از کم 140 مبینہ شرپسندوں کو گرفتار کیا تھا، جن میں دو اہم ملزمان بھی شامل تھے اور پانچ مقدمات درج کیے گئے تھے۔
جڑانوالہ سٹی پولیس میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 (عبادت گاہ کی بے حرمتی) اور دفعہ 295-اے ( مذہبی جذبات کو مجروح کرنا) شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے علاوہ مسیحی برادری کی املاک پر حملے، نذرآتش کرنے اور نقصان پہنچانے سے متعلق دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
پولیس کی طرف سے گرفتار کیے گئے افراد میں مرکزی ملزم محمد یٰسین بھی شامل ہے، جن کی شناخت ایک ویڈیو کے ذریعے ہوئی ہے جس میں ان کو مسلمانوں کو مذہبی اقلیت کے خلاف اکسانے کے لیے مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز پر اعلان کرتے ہوئے دیکھا گیا، اور وہ مسلم آبادی کو فسادات میں حصہ لینے کے لیے گھروں سے باہر آنے پر زور دے رہے تھے جس کے لیے انہوں نے پانچ مساجد سے اعلان کیے۔
دریں اثنا حکومت پنجاب نے اگلے تین سے چار دنوں میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مسمار کیے گئے مسیحی برادری کے تمام گرجا گھروں اور مکانات کو بحال کرنے کا عزم کیا ہے۔
آج سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر ایک بیان میں نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ آج پنجاب بھر میں جمعہ کے خطبات میں اقلیتوں کے حقوق، قرآن پاک اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات پر توجہ دی جائے گی۔
محسن نقوی نے کہا کہ مشکل وقت کے میں، آئیے اس بات پر زور دیں کہ ایسے واقعات کو مذہب کا رنگ نہیں دینا چاہیے، بین المذاہب ہم آہنگی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کو بے نقاب کرنے میں صبر اور تعاون کے لیے مذہبی اسکالرز کے مشکور ہیں۔
بعد ازاں لاہور میں مسیحی برادری کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی نے کہا کہ ہماری پوری کوشش ہے کہ اتوار کو مرکزی چرچ کی تقریب میں شرکت کریں گے اور چرچ بحال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے، جس میں زیادہ گھر عیسائی برادری کے ہیں اور چند مسلمانوں کے بھی ہیں، ان گھروں کی بحالی کے لیے بھی رقم فراہم کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری کوشش ہے کہ اتوار تک تمام چرچ بحال کریں ورنہ اگلے ایک دو دن کے اندر بحال کریں گے۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ تمام اسکالرز نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، اس حوالے سے گرفتاریاں بھی جاری ہیں اور آئی جی دن میں دو تین دفعہ بریفنگ دے رہے ہیں۔
وفد کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلائیں گے اس بڑے سانحے میں جو بھی ملوث ہیں، ان کو گرفتار کریں گے کیونکہ ان کے پاس واقعے ویڈیوز اور دیگر ثبوت آگئے ہیں، اس کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جو دن رات لگی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کی سیکیورٹی ریاست کی ذمہ داری ہے اور خاص طور پر جو لوگ خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں، ان کا اعتماد بحال کرنا ہے، اس کے لیے مجھے اور ہماری ٹیم کو جہاں جانا پڑا جائیں گے اور تمام ممکنہ کوششیں کریں گے۔
محسن نقوی نے کہا کہ ہم پورا یقین دلاتے ہیں، جو بھی اس سانحے کا ذمہ دار ہے وہ اس سے نہیں بچ سکے گا۔
مذمتی بیانات
چیف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گھر اور چرچ جلانے کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جڑانوالہ کا واقعہ انتہائی افسوس ناک اور ناقابل برداشت ہے اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے آئی ایس پی آر کے سالانہ انٹرن شپ پروگرام کے شرکا سے خطاب کیا جس میں پاکستان بھر کی مختلف یونیورسٹیوں کے 370 سے زائد طلبہ نے شرکت کی۔
شرکا سے خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف نے قومی ترقی میں نوجوانوں کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں جو ملک کے امن، ترقی اور خوش حالی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے دشمن قوتوں کی جانب سے ملک میں انارکی اور بدامنی پھیلانے کے لیے عوام میں دراڑ، عدم برداشت، بداعتمادی اور پرتشدد رویے کو ہوا دینے کی کوششوں کو بھی اجاگر کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سچ، آدھے سچ، جھوٹ اور غلط معلومات کے درمیان فرق کو سمجھیں۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر محمود اشرفی نے کہا تھا کہ ہم کل جڑانوالہ میں ہونے والے واقعے پر مسیحی برادری سے شرمندہ ہیں، اس واقعے سے اسلام اور پاکستان کو زخم لگا ہے اور واقعے کے ذمہ داران نے عالمی سطح پر ہمارے مقدمے کو کمزور کیا ہے۔
لاہور میں مسیحی برادری کے قائدین کے ہمراہ گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا طاہر محمود اشرفی نے کہا تھا کہ اس وقت پورا پاکستان غمزدہ ہے، جو آج جڑانوالہ میں جو ہوا ہے وہ صرف مسیحی برادری پر نہیں ہوا، وہ زخم پاکستان کو لگا ہے، وہ زخم اسلام کو لگا ہے، ہم شرمندہ ہیں اور آج ہم یہاں لاہور کے اس چرچ میں اپنے مسیحی قائدین کے پاس معافی مانگنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ ہم شرمندہ ہیں کیونکہ پاکستان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں رہنے والے مسیحی، ہندو، سکھ یا دیگر اقلیتوں سے جینے کا حق چھین لیا جائے، میں یہ قبیح عمل کرنے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ انہوں نے کس کو خوش کرنے کے لیے کیا ہے، ہمارے پیارے نبیﷺ نے تو اپنی مسجد میں نجران کے مسیحیوں کو عبادت کی اجازت دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے یہ عمل کیا ہے انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی موجودگی میں نجران کے مسیحیوں سے کیے گئے معاہدے کو پھاڑا ہے اور اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ صرف عبادت گاہیں نہیں بلکہ عبادت گاہوں میں لگائی گئی گھنٹیوں کی بھی حفاظت کرنی ہے۔
طاہر محمود اشرفی نے کہا تھا کہ ان کی جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ ریاست اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، کل جو جڑانوالہ میں جو ہوا اس پر ہم سمجھتے ہیں کہ بڑے بھائی ہونے کے ناطے ہم اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکے، ہم شرمندہ ہیں، ہم معافی کے طلب گار ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں سوال کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہر دو ماہ کے بعد، تین ماہ کے بعد ایسے واقعات کرتے ہیں، یہ کس کے ماننے والے ہیں، ان کا تعلق کس سے ہے، اللہ کی قسم نہ یہ اسلام کی تعلیم ہے نہ یہ محمد رسول اللہﷺ کی تعلیم ہے کہ آپ کسی کو نقصان پہنچائیں۔
دریں اثنا عالمی حقوق ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان پر توہین رسالت کے قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے زور دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا کہ ’توہین رسالت کے قوانین کا طویل عرصے سے غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور پاکستانی حکام کو یہ دیکھنے کے لیے مزید شواہد کی ضرورت نہیں ہے کہ توہین رسالت کے قوانین کتنے خطرناک ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا کہ جڑانوالہ میں اقلیتی مسیحی برادری کے تحفظ کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کو فوری طور پر حل کیا جائے۔