مسلم لیگ (ن) کا نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل عدالت سے ضمانت حاصل کرنے پر غور
مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پارٹی سربراہ نواز شریف کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کرنے کے امکان پر گزشتہ روز تبادلہ خیال کیا، ضمانت ملنے کی صورت میں ان کی لندن سے واپسی کی راہ ہموار ہوگی جہاں وہ تقریباً 4 برس سے مقیم ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے سینیئر رہنما اور قانونی ماہرین گزشتہ چند روز سے نواز شریف کی واپسی کے لیے صحیح وقت اور ان مقدمات پر غور کررہے ہیں جن کا انہیں پاکستان میں سامنا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق ’کچھ معاملات‘ طے پا جائیں تو صدر مسلم لیگ (ن) اور سابق وزیراعظم شہباز شریف اپنے بڑے بھائی سے ملنے لندن روانہ ہوں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ اگر سب کچھ پارٹی کے منصوبے کے مطابق ہوا، یعنی اگر نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی تو وہ اسلام آباد پہنچ جائیں گے جہاں وہ پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کریں گے۔
منصوبے کے مطابق وہ جلسے کے بعد جی ٹی روڈ سے لاہور چلے جائیں گے، جہاں مریم نواز اور حمزہ شہباز مل کر پنجاب بھر کے پارٹی کارکنان کو متحرک کرنے کے لیے ایک تاریخی ریلی کا اہتمام کریں گے، جس سے نواز شریف خطاب کریں گے۔
تاہم اس پلان میں آخری لمحات میں تبدیلی کا امکان ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ نواز شریف وطن واپسی پر اسلام آباد کے بجائے لاہور ہی پہنچیں اور جلسے سے خطاب کریں۔
گزشتہ روز لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ میں جلد پاکستان واپس جانا چاہتا ہوں۔
حال ہی میں سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف ستمبر میں وطن واپس آئیں گے، تاہم پارٹی کے کچھ سینیئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ نواز شریف کو عام انتخابات سے ایک یا 2 ماہ قبل واپس آنا چاہیے، حلقہ بندیوں کے سبب آئندہ برس مارچ تک عام انتخابات مؤخر ہونے کا امکان ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف تب ہی وطن واپس آئیں گے جب انہیں پاکستان میں درپیش مقدمات میں ریلیف ملے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی واپسی میں تاخیر یہ ظاہر کرتی ہے کہ واپسی کا ٹکٹ بک کروانے سے پہلے ابھی بھی انہیں کچھ یقین دہانیاں درکار ہیں، فروری یا مارچ تک انتخابات میں ممکنہ تاخیر نواز شریف کو اپنے کیسز نمٹانے کے لیے مزید وقت فراہم کرے گی۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
دریں اثنا شہباز شریف نے کہا کہ بطور وزیراعظم ان کا 16 ماہ کا دور ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔
انہوں نے گزشتہ روز آئندہ انتخابات اور پارٹی کے تنظیم امور کے حوالے سے ملک احمد خان اور سعد رفیق سے ماڈل ٹاون میں ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران شہباز شریف نے دونوں پارٹی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے دور حکومت میں سیاست کے بارے میں نہیں صرف عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچا۔