• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل تنازع کا شکار

شائع August 17, 2023
کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد معاملہ بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا—فائل فوٹو: فیس بک
کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد معاملہ بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا—فائل فوٹو: فیس بک

نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان کے درمیان کسی نام پر اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد اس عہدے کے لیے امیدوار کے انتخاب کا معاملہ بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تاہم گزشتہ روز کمیٹی کے اراکین کی نامزدگی کے معاملے پر بھی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میر عبدالقدوس بزنجو نے منگل (15 اگست) کی رات نگران وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے میر علی مردان ڈومکی کی نامزدگی قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، یہ تجویز سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی اور ملک سکندر خان نے عبوری وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کے بعد پیش کی تھی، انہوں نے میڈیا پر بھی یہ خبر جاری کروائی کہ میر علی مردان ڈومکی کو متفقہ امیدوار کے طور پر نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے۔

تاہم اسلام آباد میں موجود میر عبدالقدوس بزنجو نے اپوزیشن لیڈر اور جام کمال خان عالیانی سے ملاقات نہیں کی جو میر علی مردان ڈومکی کی نامزدگی سے متعلق سمری پر ان کے دستخط لینے بلوچستان ہاؤس گئے تھے، انہوں نے بتایا کہ میں نے نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے لیے میر علی مردان ڈومکی کی متفقہ امیدوار کے طور پر منظوری نہیں دی۔

بعدازاں یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا گیا تاکہ ووٹنگ کے ذریعے امیدوار کا فیصلہ کیا جا سکے، اپوزیشن لیڈر نے بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر میر جان محمد خان جمالی کو 3 نام بھیجے جن میں سابق رکن صوبائی اسمبلی محمد نواز، عبدالواحد صدیق اور یونس زہری شامل ہیں، ان تینوں کا تعلق جے یو آئی (ف) سے ہے جبکہ اپوزیشن جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل) سے کوئی رکن نامزد نہیں کیا گیا۔

پارلیمانی کمیٹی کے لیے اسپیکر کو نام بھیجتے وقت جے یو آئی (ف) کی جانب سے بی این پی مینگل اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے اراکین کو نظر انداز کرنے پر حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

تحلیل شدہ اسمبلی میں بی این پی مینگل کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصر اللہ زیری نے اسپیکر سے ملاقات کی اور درخواست جمع کراتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی کمیٹی میں نمائندگی دی جائے کیونکہ ان کی جماعتیں بھی گزشتہ اسمبلی میں اپوزیشن کا حصہ تھیں۔

دوسری جانب میرٰ عبدالقدوس بزنجو نے پارلیمانی کمیٹی میں حکومتی نمائندگی کے لیے 3 نام بھجوائے، جن میں ان کے اپنے نام کے علاوہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سے سردار عبدالرحمٰن کھیتران اور اے این پی کے زمرک خان پیرعلیزئی کا نام شامل ہے۔

پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں اسپیکر اسمبلی کے لیے اُس وقت مزید پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں جب اپوزیشن سمیت کچھ حلقوں کی جانب سے عبدالقدوس بزنجو کے نام پر اعتراض اٹھایا گیا، ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپیکر نے اپوزیشن کو آگاہ کیا کہ وزیر اعلیٰ کو پارلیمانی کمیٹی کا رکن بنانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

تاہم اس رپورٹ کے شائع ہونے تک اسپیکر اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جاسکا، ایک عہدیدار نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے کوئی تیسرا نام موصول ہونے کے بعد نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا جو اب تک موصول نہیں ہوا۔

اپوزیشن لیڈر نے نگران وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے جے یو آئی (ف) کی جانب سے 2 نام پیش کیے ہیں جن میں میر علی مردان ڈومکی اور عثمان بادینی شامل ہیں جبکہ دوسری جانب سے ابھی تک اسپیکر کو کوئی نام نہیں بھجوایا گیا۔

اختر مینگل نے جے یو آئی (ف) کی جانب سے میر علی مردان ڈومکی کی نامزدگی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے بی این پی مینگل سے کوئی مشاورت نہیں کی جو گزشتہ 5 برسوں کے دوران اپوزیشن کا حصہ رہی۔

بی این پی مینگل نے نگران وزیر اعلیٰ کے لیے اپنی پارٹی سے میر حمل کلمتی کا نام تجویز کیا جوکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گئے ناموں میں شامل نہیں تھا اور ان کا نام دینے کے بجائے علی مردان ڈومکی کا نام پہلی ترجیح کے طور پر پیش کیا گیا جبکہ عثمان بادینی کا نام دوسرے نمبر پر تھا۔

گورنر بلوچستان کی استعفیٰ دینے کی خبروں کی تردید

دریں اثنا گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے استعفیٰ سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، میں نے گورنر شپ نہیں چھوڑی اور نہ ہی اپنا استعفیٰ پیش کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں بطور گورنر بلوچستان اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہوں اور عہدہ چھوڑنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024