سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک اور واقعہ
سویڈن کے درالحکومت اسٹاک ہوم میں شاہی محل کے باہر پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں قرآن مجید کی بے حرمتی کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔
قطری نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ نے رپورٹ کیا کہ یہ واقعہ چند ہفتوں کے دوران دوسری مرتبہ پیش آیا ہے جہاں 37 سالہ سلوان مومیکا اور 48 سالہ سلوان نجم نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔
سویڈن میں مقیم عراقی پناہ گزین سلوان مومیکا اس طرح کے متعدد واقعات میں ملوث ہے جہاں 31 جولائی کو اس نے ایک اور شخص کے ہمراہ سویڈش پارلیمان کے باہر قرآن مجید کی بے حرمتی کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ سرکاری عمارات کے درمیان موجود مرکزی ٹورگٹ میں پیش آیا اور سویڈن میں اس عمل کی اظہار آزادی کے قوانین کے تحت اجازت دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سلوان مومیکا اور سلوان نجم طویل وقت سے قرآن کی بے حرمتی کرنے میں مصروف ہیں، جبکہ اب مظاہرین کا مقابلہ کرنے کے لیے میگا فون کا استعمال کرتے ہیں۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ہجوم میں سے کئی لوگ اپنے اپنے میگا فون لے کر آئے، اور دونوں افراد بڑے پیمانے پر جوابی مظاہرین کے شور میں خاموش ہوگئے۔
الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ ہجوم کے درمیان فائر فائٹر تھیم والے کپڑے پہنے ہوئے ایک گروپ موجود تھا جس کے اراکین پلاسٹک فائر فائٹر کے اشارے دیتے ہوئے اور تماشائیوں کو اپنے میگا فونز میں بات کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ’نفرت کو بجھا دو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ نے رپورٹ کیا کہ مجرموں کو سویڈش کارکنوں کے ایک گروپ کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے ان سے اشتعال انگیز عمل کو روکنے کو کہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے حملہ آوروں کی حفاظت کرتے ہوئے ایک کارکن کو گرفتار کر لیا، جو حملے کو ناکام بنانے کے لیے آگے بڑھا تھا۔
دونوں افراد نے 20 جولائی کو سویڈن کے دارالحکومت میں عراق کے سفارت خانے کے باہر بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا۔
ان واقعات پر پوری مسلم دنیا میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے، پاکستان سمیت کئی ممالک نے بین الاقوامی فورمز پر ان کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
حالیہ واقعے کے بعد سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اس عمل کو انتہائی پریشان کن قرار دیا۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں سابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس طرح کے قابل مذمت واقعات کی بار بار ہونے والی نوعیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ان کے پیچھے کوئی گھناؤنا، مذموم اور شیطانی ارادہ ہے جس کا مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سویڈش حکومت کی جانب سے قانون کے سخت نفاذ کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایکشن نہ ہونا بھی اتنا ہی پریشان کن ہے اور محض افسوس اور مذمت کا اظہار کافی نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ مذہبی علامتوں، مقدس ہستیوں اور پاک کتابوں کی بے حرمتی بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتی ہے۔
ایسی کارروائیوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ
جولائی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مذہبی منافرت سے متعلق ایک قرارداد کی منظوری دی تھی، جو کہ پاکستان نے 57 ملکی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے متعارف کرائی گئی تھی۔
قرارداد میں اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ سے مذہبی منافرت پر ایک رپورٹ شائع کرنے اور ریاستوں سے اپنے قوانین پر نظرثانی کرنے اور تفریق کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اسی مہینے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کی حمایت پاکستان نے بھی کی تھی اور اس میں نفرت انگیز تقاریر سے نمٹنے اور عبادت گاہوں، مذہبی علامات اور مقدس کتابوں پر حملوں کی سخت مذمت کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قرارداد کا عنوان ’منافرت آمیز تقاریر کا مقابلہ کرنے کے لیے بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے اور رواداری کو فروغ دینا‘ تھا جس نے 193 رکنی اسمبلی کی منظوری حاصل کی تھی اور اس میں کہا گیا تھا کہ ’مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر افراد کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
تاہم دونوں ممالک کی حکومتوں نے کہا ہے کہ وہ متعدد مسلم ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے قانونی طور پر اس طرح کی کارروائیوں کو محدود کرنے کے طریقوں کا جائزہ لے رہے ہیں، لیکن سویڈن میں ایسا کرنے کے لیے محدود سیاسی خواہش بھی موجود ہے۔
الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ رواں ماہ سویڈن کی حکومت نے آزادی اظہار رائے کے قوانین میں کسی بھی قسم کی بڑی تبدیلیوں کو مسترد کر دیا تھا، لیکن یہ دہرایا گیا تھا کہ اگر قومی سلامتی کو کوئی واضح خطرہ ہو تو وہ ایسے اقدامات پر غور کرے گی جو پولیس کو عوامی مقامات پر مقدس کتابوں کی بے حرمتی روکنے کی اجازت دیں۔
سویڈن، ڈنمارک اور ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت ہے لیکن ہمسایہ ملک فن لینڈ میں نہیں جہاں عوام میں مقدس صحیفوں کی بے حرمتی غیر قانونی ہے۔ سویڈن میں بھی ایسا ہی قانون تھا لیکن 1970 کی دہائی میں اسے ختم کردیا گیا۔
سویڈن میں نسلی، قومی اور مذہبی گروہوں اور جنسی رجحان کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر پابندی لگانے کے قوانین ہیں۔ تاہم مقدس صحیفوں کی بے حرمتی اب تک نفرت انگیز تقریر کے طور پر قابل قبول نہیں ہوئی ہے بلکہ اسے تنقید کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
کرسچن ڈیموکریٹس کے نائب وزیر اعظم ایبا بش نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ سویڈن نے اپنی ہی قانون سازی کا تعین کیا ہے اور وہ دوسرے ممالک کے عقائد یا قوانین سے متاثر نہیں ہوگا۔
صحافی اور آزادی اظہار کے ماہر نیلس فنکے نے کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے پیش کردہ پبلک آرڈر ایکٹ میں تبدیلیاں متعارف کرانا بہت مشکل ہوگا اور ممکنہ طور پر سویڈن کی آئینی طور پر محفوظ کردہ اسمبلی کی آزادی سے متصادم ہوگا۔