نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں طے ہونے کا امکان
سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کے انتخاب کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جانے کا امکان ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قانون کے تحت صوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 3 روز کے اندر نگران وزیر اعلیٰ کے تقرر کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اس حساب سے کسی نام کو حتمی شکل دینے کے لیے منگل آخری دن تھا جب کہ 12 اگست کو گورنر بلوچستان ملک عبدالولی کاکڑ نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کردیے تھے۔
قبل ازیں، دونوں رہنماؤں نے نگران وزیر اعلیٰ پر اتفاق رائے کے لیے مجوزہ امیدواروں کے ناموں پر تبادلہ خیال کیا تھا۔
دونوں فریقین نے پیر کی رات دیر گئے تک ملاقات کے دوران زیر بحث امیدواروں کے ناموں کا انکشاف نہیں کیا۔
تاہم ذرائع نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان علی مردان ڈومکی کے نام پر بات چیت ہوئی، عبد القدوس بزنجو نے اس سمری پر دستخط کرنے پر اتفاق نہیں کیا جس میں علی مردان ڈومکی کو اپنا جانشین بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔
اس سے قبل ذرائع نے کہا کہ اتفاق رائے کے ساتھ کسی امیدوار کا نام سامنے آنا سب کے لیے حیران کن ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ چند روز قبل نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے انتخاب پر ہوئے تھے۔
خان آف قلات کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ارب پتی قبائلی بزرگ رہنما ملک شاہ اور شہزادہ احمد علی کو بھی اہم عبوری عہدے کے لیے ممکنہ امیدواروں کے طور پر نامزد کیا گیا تھا لیکن سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس سے لگتا ہے کہ علی مردان ڈومکی اب تک کے سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
علی مردان ڈومکی سبی کے سابق ضلعی ناظم رہ چکے ہیں، انہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں پی بی-7 سے اپنے بھائی سردار سرفراز ڈومکی کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔
منگل کے روز علی مردان ڈومکی اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال عالیانی نے بھی اسلام آباد میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات کی۔
آئین کے مطابق اگر وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف مقررہ مدت میں نگران وزیر اعلیٰ کے لیے نام پر اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا۔
سبکدوش وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر تین تین امیدواروں کے نام پارلیمانی کمیٹی کو ارسال کریں گے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی بھی کسی نام پر اتفاق رائے پر نہ پہنچ سکی تو معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جائے گا جو اس معاملے پر حتمی فیصلہ کرے گا۔