نواز شریف کو یقین ہے کہ انتخابات فروری میں ہوں گے، رانا ثنااللہ
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پارٹی کے قائد نواز شریف کو یقین ہے کہ ملک میں عام انتخابات اگلے برس فروری میں ہوں گے۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں نواز شریف سے متعلق سوال پر رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’ایک فیصلہ ہوچکا ہے اور اس بارے میں پارٹی اور نواز شریف خود بھی واضح ہیں کہ اگلے انتخابات میں پارٹی کی قیادت نواز شریف پاکستان آکر خود کریں گے اور کامیابی کی صورت میں وزیراعظم کے امیدوار بھی وہی ہوں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کس تاریخ کو آنا ہے یہ نہ تو خاندانی ذرائع فیصلہ کریں گے اور نہ پارٹی فیصلہ کرے گی بلکہ تاریخ کا موزوں ہونا اور اس کا اعلان نوازشریف خود کریں گے یا فیصلہ کرکے پارٹی سے کہیں گے کہ آپ اعلان کریں کہ فلاں تاریخ کو فلاں ایئرپورٹ میں آرہا ہوں تو اس کے باقاعدہ انتظامات ہوں گے اور ان کے استقبال کے لیے منصوببہ بندی ہوگی اور ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ ان کی واپسی پر فقیدالمثال استقبال کیا جائے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’انہیں (نواز شریف کو) پورا یقین ہے کہ انتخابات فروری میں ہوں گے اور اس سے پہلے حلقہ بندی ہونی جو دسمبر تک مکمل ہوجائے گی، انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں، انہیں بھی نظر آرہے ہیں اور دوسروں کو بھی نظر آنا چاہیے، اس پر کسی کو کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے‘۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’اگر انتخابات 14 مئی کو ہوتے تو اس سے پہلے وہ یہاں ہوتے اور انتخابی مہم کی سربراہی کر رہے ہوتے اور اب اکتوبر میں ہو رہے ہوتے تو وہ آج آچکے ہوتے لیکن اب انتخابات کا مردم شماری کی منظوری کے بعد معلوم ہو رہا ہے باقی فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ انتخابات فروری میں ہویں گے تو ان کا ستمبر یا اکتوبر پر آنا مناسب رہے گا‘۔
یاد رہے کہ نواز شریف نومبر 2019 میں صحت کی خرابی کی وجہ سے علاج کے لیے لندن چلے گئے تھے جبکہ وہ اس وقت جیل میں تھے لیکن تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم تاحال واپس نہیں آئے حالانکہ ان کے خلاف متعدد مقدمات عدالتوں میں زیرالتوا ہیں۔
شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ نواز شریف اگلے ماہ ستمبر میں واپس آئیں گے اور مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی قیادت کریں گے اور اگر پارٹی کو اکثریت ملی تو وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے۔
رانا ثنااللہ نے بھی شہباز شریف کا دعویٰ دہراتے ہوئے کہا کہ ’میں پوری وثوق کے ساتھ اپنی معلومات اور سمجھ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات 90 دن میں چاہتی تھی اور اب مردم شماری والا معاملہ آگیا ہے تو جتنے دن اور لگیں گے تو فروری بنتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’کسی جگہ پر یہ خیال موجود نہیں ہے کہ اس معاملے کو طول دیا جائے اور یہ ملک جس بحران میں جا چکا ہے، ڈیفالٹ سے شہباز شریف کی حکومت نے بڑی مشکل سے سیاسی قیمت ادا کرکے بچا لیا ہے لیکن اس کو آگے لے کر جانے کے لیے ایک ایسی جمہوری حکومت جس کے پیچھے عوام کا مینڈیٹ اور پورا مدت ہو اس کا ہونا ضروری ہے‘۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’نگران سیٹ اپ کے ساتھ ملک اس بحران سے نکل نہیں سکتا جبکہ ملک کو اس بحران سے آگے بڑھنا ضروری ہے، اسی طرح ایڈہاک کی بنیاد پر نظام کتنی دیر اور چلا سکتے ہیں‘۔
آئین پاکستان کے تحت اگر کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو انتخابات 60 روز کے اندر ہوں گے لیکن اگر مدت کی تکمیل سے پہلے تحلیل ہوتی ہے تو اس صورت میں انتخابات کے لیے 90 روز مل جاتے ہیں۔
ملک میں عام انتخابات آئین کے مطابق نومبر میں ہوں گے تاہم ملک کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد بظاہر واضح ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے لیے وقت درکار ہوگا۔
حال ہی میں ڈان کی رپورٹ میں حوالہ دیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا تھا کہ کمیشن اب آئینی طور پر نئی حلقہ بندیوں کا پابند ہے اور اس کے لیے کم از کم 4 ماہ لگیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آئینی تقاضا ہے اور ہم ایسا کریں گے، اس حوالے سے تفصیلات کمیشن کے اجلاس میں واضح کی جائیں گی، جو سرکاری سطح پر نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد ہوگا۔
کمیشن کے ایک اور عہدیدار کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو دیگر اہم اقدامات بھی کرنا ہوں گے اور بظاہر اشارہ دیا کہ انتخابات اگلے برس مارچ یا اپریل تک ملتوی ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں حلقہ بندیوں کے حوالے سے سماعت کے دوران ذکر آیا اور چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا عمل شفاف طریقے سے مکمل کرنا چاہیے اور زور دیا کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے اور کمیش کو ہدایت کی کہ انتخابات سے قبل تمام مسائل حل کرے۔
جس کے بعد الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ بدھ کو اجلاس ہوگا، جس میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے حلقہ بندی اور اس سے متعلق معاملات زیر بحث آئیں گے۔