امریکا: ہوائی کے جنگلات میں لگی آگ سے متعلق تحقیقات شروع کرنے کا اعلان
امریکی ریاست ہوائی کے چیف لیگل افسر نے کہا ہے کہ جنگلات میں لگی تباہ کن آگ پر قابو پانے کے حوالے سے تحقیقات شروع کر رہے ہیں جہاں آگ لگنے کے نتیجے میں رواں ہفتے کم از کم 67 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب متاثرہ علاقے لاہائنہ کے رہائشیوں کو پہلی بار شہر میں واپس جانے کی اجازت دی گئی جہاں زیادہ تر لوگوں کے گھر آگ کی وجہ سے خاکستر ہوچکے ہیں اور وہ حکومت کی جانب سے بے یارومددگار چھوڑے جانے پر برہم ہیں۔
ولیم ہیری نامی رہائشی نے اس حوالے سے افواہوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب باتیں زبانی ہو رہی ہیں، ایک شخص بات سنتا ہے اور پھر اسے دوسرے کو بتاتا ہے لیکن یہ سرکاری معلومات نہیں ہوتیں، حکام یہاں آ کر ہمیں کوئی وضاحت نہیں دیتے۔
ایک رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں اپنی مدد خود کرنا ہوگی۔
انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کہاں ہے؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے، ہم آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتے، ہماری مدد نہیں کی جا رہی بلکہ اب تو ہم لوٹ مار کے بارے میں بھی سن رہے ہیں۔
ہوائی کی اٹارنی جنرل این لوپیز نے کہا کہ ان کا دفتر اس ہفتے ماوئی کاؤنٹی اور ہوائی کے جزیروں میں جنگل میں لگنے والی آگ اور اس کے بعد کی صورتحال کے حوالے سے اہم فیصلہ سازی اور مستقل پالیسیوں کا جائزہ لے گا۔
انہوں نے کہا کہ میرا محکمہ، جنگل کی آگ سے پہلے اور اس کے دوران کیے گئے فیصلوں کو سمجھنے کے لیے پرعزم ہے جس کے بعد عوام کو اس کے نتائج سے آگاہ کیا جائے گا۔
مکینوں کی واپسی
آگ لگنے پر علاقوں سے رخصت ہونے والے چند لوگ واپس لاہائنا آنے پر پڑوسیوں سے دوبارہ ملنے پر خوشی کے آنسو بہاتے نظر آئے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ شاید وہ اپنے پڑوسیوں کو زندہ نہ دیکھ سکیں۔
چائنا چو نے روتے ہوئے امبر لینگڈن کو گلے لگایا اور کہا کہ ’تم زندہ ہو، میں تمہیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا‘۔
کیتھ ٹوڈ نے اپنے گھر کو سلامت دیکھ کر اے ایف پی کو بتایا کہ ’مجھے یقین نہیں آرہا، میں شکرگزار ہوں لیکن ساتھ ہی یہ صورتحال بہت تباہ کُن ہے‘۔
64 سالہ ٹوڈ نے اپنے اور اپنے پڑوسی کے گھروں کو صحیح حالت میں دیکھا اور ان کا سولر پینل سے چلنے والا فریج بہترین کام کررہا ہے۔
ماؤنی کے پانی کے محکمے نے کہا کہ لاہائنا کے آبی نظام کے کچھ حصے آگ کی وجہ سے تباہ ہوگئے ہیں، ان حالات کی وجہ سے بینزین اور دیگر غیر مستحکم نامیاتی کیمیکلز پانی کے نظام میں شامل ہونے سے نقصان دہ آلودگی پیدا ہوسکتی ہے۔
اس لیے احتیاط کے طور پر ہم رہائشیوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اگلے نوٹس تک پینے اور کھانا پکانے کے لیے نل کے پانی کے استعمال سے گریز کریں۔
چند لوگ لاہائنا واپسی پر تباہ کن مناظر دیکھ کر افسردہ نظر آئے۔
انتھونی لا پوینٹے اپنے اس گھر سے ہاتھ دھو بیٹھے جس میں وہ گزشتہ 16سال سے مقیم تھے اور انہوں نے اس حوالے سے اے ایف پی کو بتایا کہ اپنا گھر جلنے پر مجھے شدید گہرا صدمہ ہوا ہے۔
مزید ریسکیو ٹیمیں طلب
گزشتہ روز تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد 67 بتائی گئی جوکہ 1960 میں بگ آئی لینڈ میں سونامی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے، یہ سونامی ہوائی کی تاریخ کی سب سے بدترین قدرتی آفت تھی جس میں 61 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
گورنر جوش گرین نے کہا کہ ’بلاشبہ ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا، ہم نہیں جانتے کہ یہ تعداد آخر کتنی ہوگی۔
ماؤنی کاؤنٹی نے بتایا کہ ہونولولو سے عملہ کے-9 کیڈاور کتوں سے لیس سرچ اور ریسکیو ٹیموں کے ساتھ ماؤئی پہنچ گیا ہے۔
فائر فائٹرز آگ بجھانے کا کام جاری ہے اور لاہائنا میں آگ پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں۔
ماوئی کاؤنٹی کے پولیس چیف جان پیلٹیر نے جمعرات کو کہا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ہزار افراد سے رابطہ نہیں ہو پارہا ہے جس پر انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لاپتا یا مرچکے ہیں۔
یہ آگ رواں برس موسم گرما میں شمالی امریکا میں دیگر انتہائی موسمی واقعات کے بعد بھڑک اٹھی، جس میں ریکارڈ توڑ آگ اب بھی پورے کینیڈا میں جل رہی ہے اور گرمی کی ایک خطرناک لہر نے امریکا کے جنوب مغربی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔