انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم ہوں گے، صدر مملکت نے سمری پر دستخط کردیے
قائد ایوان شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے درمیان نگران وزیراعظم کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوار الحق کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے اور صدر مملکت نے انوارالحق کی بطور نگران وزیراعظم تقرری کی سمری پر دستخط بھی کردیے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انوار الحق کاکڑ کی بطور نگران وزیراعظم تعیناتی کی منظوری دے دی۔
مزید بتایا گیا کہ صدر مملکت نے تعیناتی کی منظوری آئین کے آرٹیکل 224 (ون) اے کے تحت دی ہے۔
قبل ازیں، سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن کے مطابق وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف نے مشترکہ طور پر دستخط کرکے ایڈوائس صدر پاکستان کو بھجوا دی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے راجا ریاض کا کہنا تھا کہ پہلے ہم متفق ہوئے کہ جو بھی وزیراعظم ہو، وہ چھوٹے صوبے سے ہو، تاکہ چھوٹے صوبے کو جو محرومی ہے، وہ دور ہو اور ایسا نام ہو، جو غیرمتنازع ہو، کسی سیاسی جماعت سے نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اتفاق انوار الحق کاکڑ کے نام پر اتفاق ہوا ہے، انوار الحق کاکڑ وزیراعظم ہوں گے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے ہے ، کیا ان پر وزیراعظم کی طرف سے اتفاق کیا گیا ہے، جس پر راجا ریاض نے کہا کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ باقی پانچ نام ہم کسی کو نہیں بتائیں گے لیکن یہ نام میں نے دیا تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق چھوٹے صوبے بلوچستان سے ہے۔
راجا ریاض نے بتایا کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے نام پر میں نے اور وزیراعظم صاحب نے دستخط کر دیے ہیں، امید ہے کہ وہ کل تک حلف اٹھا لیں گے۔
نگران کابینہ کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نگران وزیراعظم کا اختیار ہوگا، اس حوالے سے ہماری کوئی مشاورت نہیں ہوئی، میں نے اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ چھوٹے صوبے کا ایسا آدمی جو متنازع نہ ہو، اس کا نام پیش کیا تھا، اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے اتفاق کر لیا ہے۔
انوار الحق کاکڑ کون ہیں؟
انوارالحق کاکڑ مارچ 2018 میں آزاد حییثیت سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے، ان کی 6 سالہ مدت مارچ 2024 میں ختم ہوگی۔
انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز اور ہیومن ریسوس ڈیولپمنٹ کے چیئرمین کے طور پر کام کیا، اس کے علاوہ وہ سینیٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی، فنانس اینڈ ریونیو، خارجہ امور اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے رکن بھی رہے۔
انوار الحق کاکڑ نے سینیٹ میں 2018 میں قائم ہونے والی بلوچستان عوامی پارٹی کے لیے پارلیمانی لیڈر کا کردار بھی ادا کیا۔
انوار الحق کاکڑ نے 5 سال تک اس پوزیشن پر خدمات انجام دیں، تاہم، پانچ ماہ قبل ان کی جماعت نے نئی قیادت کے انتخاب کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہیں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے دسمبر 2015 سے جنوری 2018 تک بلوچستان حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔
اسلام آباد میں قائم تحقیقی ادارے سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ کنٹیمپریری ریسرچ کے مطابق انوارالحق کاکڑ نے بلوچستان یونیورسٹی سے سیاسیات اور سماجیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی تھی۔
نگران وزیراعظم انگریزی، اردو، فارسی، پشتو، بلوچی اور براہوی زبانوں میں مکمل مہارت رکھتے ہیں۔
نگران وزیراعظم کی تعیناتی پر مختلف آرا
سابق وزیر اطلاعات اور استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما فواد چوہدری نے انوار الحق کاکڑ کی تقری کو ملک کے لیے خوش آئند قرار دیا۔
انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر انوار ایک سچے پاکستانی ہیں، وہ ایک پڑھے لکھے لیکن معتدل مزاج شخص ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے بعد پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر آئی ہے اور اللہ پاکستان کے لیے اس فیصلے کو مبارک کرے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے نگران وزیراعظم بننے پر انوار الحق کاکڑ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے نگران وزیراعظم کا معاملہ شہباز شریف پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد امیدوار نامزد کریں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ انوار الحق کاکڑ جکی قیادت میں الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد میں کامیاب رہے گا۔
تاہم فیصل کریم کنڈی کے برعکس خورشید شاہ نئے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے انوارالحق کے انتخاب سے زیادہ خوش نظر نہیں آتے۔
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے کہا کہ ہمارے علم میں نہیں تھا کہ انوار الحق کاکڑ کے نام کا فیصلہ ہوا ہے اور اگر اس عہدے کے لیے کسی اور شخص کا انتخاب کیا جاتا تو بہتر تھا۔
تاہم خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اگر بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں کامیاب رہتے ہیں تو انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے نگران وزیراعظم کے عہدے کے لیے پانچ نام تجویز کیے تھے جس میں انوار الحق کاکڑ کا نام شامل نہیں تھا، ہم نے سلیم عباس جیلانی، کلیل عباس جیلانی، محمد ملک اور افضل خان کے نام تجویز کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس نے کسی نے بھی انوار الحق کاکڑ کا نام تجویز کیا تھا، ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ انوار الحق کاکڑ ذہین، صاف گو اور معقول آدمی ہیں۔
اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے نگران وزیر اعظم کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انوار الحق کاکٹر محاذ آرائی کے بجائے تعاون کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیشہ بلوچستان کے مفادات کی اچھی طرح نمائندگی کرتے رہے ہیں۔
نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت
قبل ازیں، وزیر اعظم شہباز شریف اور راجا ریاض کے درمیان ملاقات ہوئی تھی، جس میں توقع تھی کہ آج نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نام پر اتفاق ہو جائے گا کیونکہ اس معاملے پر بات چیت کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے قریب تھی۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کو 12 اگست تک نگران وزیرِ اعظم کا نام دینے کے لیے خط لکھ دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ آئین کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 3 دن کے اندر نگران وزیرِ اعظم کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ امید ہے کل (ہفتہ) تک ایک نام پر اتفاق رائے قائم کرلیں گے۔
انہوں نے گزشتہ رات سبکدوش ہونے والے حکمران اتحاد کے رہنماؤں کو عشائیہ بھی دیا تھا جس کے دوران وزیراعظم نے اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کی تھی۔
موجودہ سیاسی صورتحال سے آگاہ ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نگران وزیراعظم کے نام میں تاخیر کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ راجا ریاض کے بارے میں عمومی طور پر یقین کیا جاتا ہے کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن لیڈر ہیں، تاہم وہ مختلف شخصیت کے طور پر نظر آئے، اور ان کا اصرار ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے تجویز کردہ نام کے بجائے ان کی جانب سے دیئے گئے نام پر اتفاق کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف وزیراعظم شہباز شریف کے ذریعے اصرار کر رہے ہیں کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا نام نگران وزیر اعظم کے لیے فائنل کیا جائے گا، اور اگر اسحٰق ڈار نہیں تو پھر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو نگران وزیراعظم بنایا جائے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ تاہم، پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجا ریاض کسی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر پاور کوریڈور سے ہدایت لے رہے ہیں اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے نام پر اصرار کر رہے ہیں، چیئرمین سینیٹ نے جمعہ کو راجا ریاض کے علاوہ اسحٰق ڈار اور احسن اقبال سے ملاقات کی تھی۔
اس حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کو 12 اگست تک نگران وزیرِ اعظم کا نام دینے کے لیے خط لکھا تھا کہ آئین کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 3 دن کے اندر نگران وزیرِ اعظم کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے۔
جس پر شہباز شریف نے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر صاحب آئین کی کتاب پڑھ لیں، آئین میں آٹھ دن کا وقت مقرر ہے تو صدر صاحب کو خط لکھنے کی پتا نہیں کیوں جلدی تھی۔