’نگران وزیراعظم کے تقرر کیلئے 8دن کا وقت مقرر ہے، صدر کو خط لکھنے کی کیوں جلدی تھی‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے نگران وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے لکھے گئے خط پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر صاحب آئین کی کتاب پڑھ لیں، آئین میں آٹھ دن کا وقت مقرر ہے تو صدر صاحب کو خط لکھنے کی پتا نہیں کیوں جلدی تھی۔
صدر مملکت کی جانب سے نگران وزیراعظم کے جلد تقرر کے حوالے سے انہیں لکھے گئے خط کے بارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ صدر مملکت کو نگران وزیراعظم سے متعلق کس چیز کی جلدی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی طور پر نگران وزیراعظم کی تقرری کے لیے آئین نے 8 دن مقرر کر رکھے ہیں اور امید ہے کل تک ایک نام پر اتفاق رائے قائم کرلیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر کو انتظار کرنا چاہیے تھا، صدر صاحب آئین کی کتاب پڑھ لیں، آئین میں آٹھ دن کا وقت ہے، صدر صاحب کو خط لکھنے کی پتا نہیں کیوں جلدی تھی، ابھی 12اگست کل ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ نگران وزیر اعظم کے حوالے سے اتحادی رہنماؤں سے آج مشاورت کروں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ 38سالہ سیاسی زندگی کا سب سے مشکل ترین دور یہ 16ماہ کا دور حکومت رہا کیونکہ پی ٹی آئی نے ہمیں مہنگائی، لاقانونیت، بدحال معیشت اور ناکام خارجہ پالیسی تحفہ میں دی۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم مشکل فیصلے نہ کرتے تو ملک ڈیفالٹ کرجاتا اور افراتفری کی صورتحال ہوتی اور میں چاہتا ہوں کہ الیکشن بروقت ہوں۔
وزیر اعظم نے پیمرا ترمیمی بل منظور ہونے پر صحافیوں کو مبارکباد بھی پیش کی۔
واضح رہے کہ اس بیان سے چند گھنٹے قبل صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف اور تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے قائدِ حزبِ اختلاف راجا ریاض احمد کو کل تک نگران وزیراعظم کا نام دینے کے لیے خط لکھا تھا۔
صدر مملکت نے خط میں لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 (1) اے کے تحت صدر مملکت، وزیراعظم اور قائدِحزب اختلاف کے مشورے سے نگران وزیر اعظم کی تعیناتی کرتے ہیں۔
خط کے متن میں کہا گیا کہ آئین کے تحت وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے 3 دن کے اندر نگران وزیرِ اعظم کا نام تجویز کرنا ہوتا ہے۔
صدر مملکت نے لکھا کہ میں نے وزیراعظم کی تجویز منظور کی، 9 اگست کو قومی اسمبلی تحلیل کر دی، وزیرِ اعظم اور قائد حزب اختلاف 12 اگست تک موزوں نگران وزیر اعظم کا نام تجویز کریں۔
اسمبلی کی تحلیل کے بعد اب وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت جاری ہے اور دونوں کے پاس کل تک باہمی مشاورت کا وقت موجود ہے۔
اگر 12 اگست تک دونوں رہنما اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو معاملہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا جو کہ 3 دن کے اندر عبوری وزیر اعظم کے لیے کسی نام کو حتمی شکل دے گی۔
تاہم، اگر کمیٹی مقررہ مدت میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو نامزد امیدواروں کے نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیے جاتے ہیں، اس کے بعد کمیشن کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کے لیے دو دن کا وقت ہوتا ہے۔
سیاسی حلقوں میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم شہباز 14 اگست تک اپنے عہدے پر رہنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یوم آزادی پر پرچم کشائی کی تقریب میں شرکت کر سکیں، جس کے بعد نگراں وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
آئین کے مطابق عبوری سیٹ اپ کے سربراہ کی تقرری تک وزیر اعظم شہباز شریف نگراں وزیراعظم کے طور پر کام کر سکتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 94 میں کہا گیا ہے کہ صدر وزیر اعظم سے اس وقت تک عہدے پر فائز رہنے کو کہہ سکتے ہیں جب تک کہ ان کے جانشین وزیر اعظم کے عہدے پر نہیں آتے۔
عبوری سیٹ اپ کے سربراہ کے نام کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کی ایک وجہ مسلم لیگ (ن) کی اپنے ہی رہنما کو عہدے پر لانے کی خواہش سمجھی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نگراں وزیر اعظم کی تقرری کے معاملے پر ’تیسرے فریق‘ کی مشاورت سے بات کر رہے ہیں۔