بھارتی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام، اپوزیشن کا واک آؤٹ
بھارتی پارلیمنٹ میں تین روز تک جاری رہنے والی گرما گرم بحث کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی اور اپوزیشن نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
اپوزیشن نے منی میں جاری انسانیت سوز مظالم اور فسادات پر بطور احتجاج وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی لیکن جمعرات کو تحریک ووٹنگ سے قبل ہی اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی۔
واک آؤٹ کرنے والوں میں کانگریس کے مرکزی رہنما راہل گاندھی بھی شامل تھے جنہوں نے بدھ کو ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ مودی حکومت پورے ملک کو جلانے پر تلی ہوئی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ جو جمہوریت پر بھروسہ نہیں کرتے، وہ ہمیشہ تبصرہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن ان میں تنقید سننے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ اول فول بول کر بھاگ جاتے ہیں، کوڑا پھینکیں گے اور بھاگ جائیں گے، جھوٹ کا پراپیگنڈا کریں گے اور بھاگ جائیں گے، یہ ان کا کھیل ہے اور ملک ان سے اس سے زیادہ کی توقع نہیں رکھتا۔
حکومت نے عدم اعتماد کے ووٹ کو ووٹنگ سے پہلے ہی مسترد کردیا تھا اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے قبل خبروں کی زینت بننے کا ایک حربہ قرار دیا تھا۔
نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کو 543 رکنی ایوان زیریں میں بڑی اکثریت حاصل ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ لگاتار تیسری مرتبہ بھی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر کے اقتدار میں آئے گی۔
ہندو اکثریتی آبادی کے حامل بھارت میں قوم پرستی کا ایجنڈا بھارتیا جنتا پارٹی کے لیے جیت کا کامیاب حربہ ثابت ہوا ہے اور مودی کی جماعت گزشتہ دو انتخابات میں کانگریس کو واضح اکثریت کے ساتھ شکست دینے میں کامیاب رہی۔
نریندر مودی نے جمعرات کو کہا کہ میں کانگریس کی پریشانی کو سمجھ سکتا ہوں، وہ ایک ہی ناکام پراڈکٹ کو بار بار لانچ کر رہے ہیں لیکن یہ لانچ ہر بار ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے۔
53 سالہ راہول گاندھی تین سابق ہندوستانی وزیر اعظم کے بیٹے، پوتے اور پڑپوتے ہیں۔
انہوں نے بدھ کے روز تحریک عدم اعتماد پر بحث کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی پر منی پور میں ہندوستان اور بھارت ماتا کےقتل کا الزام لگایا تھا۔
دی وائر کی رپورٹ کے مطابق اپنی تقریر میں حکمران جماعت پر حملہ کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما نے کہا تھا کہ آپ کے وزیر اعظم منی پور نہیں جا سکتے کیونکہ انہوں نے وہاں ملک کا قتل کیا ہے۔
راہُل گاندھی نے کہا تھا کہ راہل نے حکمراں جماعت پر’دیش دروہی’ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک آواز ہے، ہماری عوام کی آواز، دل کی آواز ہے، اس آواز کو منی پور میں آپ نے قتل کیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ بھارت ماتا کاقتل آپ نے منی پور میں کیا ہے، آپ نے منی پور کے لوگوں کو مار کر ہندوستان کو قتل کیا ہے، آپ دیش دروہی ہو، آپ محب وطن نہیں ہو، آپ دیش بھگت نہیں ہو، آپ نے منی پور میں ملک کا قتل کیا ہے۔
مودی پر ماضی میں کیے گئے ہتک آمیز تبصروں کی وجہ سے سپریم کورٹ کی جانب سے سزا پانے والے کانگریس کے رہنما کی پارلیمنٹ کی رکنیت پیر کو ہی بحال کی گئی تھی۔
گاندھی کو مارچ میں اس معاملے میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جہاں ناقدین نے اس سزا کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی جانب سے سیاسی مخالفت کی آواز دبانے کی کوشش قرار دیا تھا۔
مودی کی پارٹی پر سیاسی مخالفین اور انسانی حقوق گروپوں کی طرف سے بار بار الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی تقسیم کو ہوا دے رہی ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق منی پور میں مئی سے لے کر اب تک کم از کم 152 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جہاں چند ماہ قبل ہندو اکثریتی میتی قبیلے اور عیسائی کوکی برادری کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوئے تھے۔
جمعرات کو ایوان سے خطاب کے دوران نریندر مودی نے تشدد کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ آنے والے وقت میں منی پور میں امن رہے گا۔
منی میں پرتشدد واقعات پر قابو پانے کے لیے ہزاروں اضافی فوجیوں کو بھیجا گیا ہے اور پورے منی پور میں کرفیو کے نفاذ کے ساتھ انٹرنیٹ سروس بند ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے منی پور میں بی جے پی کی زیرقیادت ریاستی حکام پر تقسیم پر مبنی پالیسیاں اپنانے اور ہندو اکثریت پسندی کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس تنازع کے حوالے سے مسلسل تشویشناک خبریں موصول ہونے کے باوجود بھارتی وزیراعظم نے دو ماہ تک اس معاملے پر لب کشائی نہ کی جس کی وجہ سے انہیں مخالفین کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔