• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی

شائع August 10, 2023
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کررہے ہیں— فوٹو: ٹوئٹر
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کررہے ہیں— فوٹو: ٹوئٹر

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی تحلیل کردی جس کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری آج صدر مملکت کو بھییجی تھی جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کردیے۔

صدر مملکت نے قومی اسمبلی وزیر اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت کی تحلیل کی۔

آئین کے آرٹیکل 58 کے مطابق اگر صدر وزیر اعظم کی سفارش کے بعد 48 گھنٹوں کے اندر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہو جاتی۔

وزیر اعظم نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں صدر مملکت سے عبوری حکومت کی تشکیل کی درخواست بھی کی ہے۔

6 اگست کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اسمبلیاں اپنی مقررہ مدت سے 3 روز قبل 9 اگست کو (آج) تحلیل کر دی جائیں گی، جس کے بعد انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں گے۔

اسمبلی تحلیل کے بعد اب وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف نگران وزیراعظم کے نام پر مشاورت کریں گے اور آئندہ تین روز میں وہ دونوں اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو معاملہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کو بھیج دیا جائے گا جو کہ 3 دن کے اندر عبوری وزیر اعظم کے لیے کسی نام کو حتمی شکل دے گی۔

تاہم، اگر کمیٹی مقررہ مدت میں کوئی فیصلہ نہ کر سکے تو نامزد امیدواروں کے نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیے جاتے ہیں، اس کے بعد کمیشن کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کے لیے دو دن کا وقت ہوتا ہے۔

اس سے قبل آج قومی اسمبلی میں اپنے الوداعی خطاب کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ آج رات ایوان کی اجازت سے قومی اسمبلی کی تحلیل کی سمری صدر کو بھجوا دوں گا۔

بعد ازاں وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایک بیان میں کہا کہ منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لی ہے اور ان کی وزارت نے آئین کے آرٹیکل 58 کے تحت اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری وزیراعظم کو بھجوا دی ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ سمری میں آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت عبوری حکومت کے قیام کی درخواست کی گئی ہے کہ سمری کی منظوری اور نگراں حکومت کی تشکیل کے بعد وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

موجودہ اسمبلی کی مدت 12 اگست کو پوری ہو رہی تھی تاہم مقررہ وقت سے قبل اسمبلی تحلیل کیے جانے کے سبب اب الیکشن کمیشن کو آئین کے تحت آئندہ 90 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا ہو گا۔

اگر اسمبلی اپنی مدت کر لیتی تو الیکشن کمیشن کو 60 دن کے اندر الیکشن کا انعقاد کرانا پڑتا۔

اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 224۔اے کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق، اس سے پہلے آج وزیراعظم نے اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے حتمی اجلاس کی صدارت بھی کی۔

ملاقات میں وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں کو نگران حکومت کے حوالے سے اعتماد میں لیا اور کابینہ کے تمام ارکان کا سبکدوش ہونے والی حکومت کے 16 ماہ کے دور میں پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

واضح رہے کہ 2018 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آئی تھی اور عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔

تاہم پونے چار سال پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ سمیت اپوزیشن اتحاد کی کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت اختتام کو پہنچی تھی اور وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔

اس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ امیدوار شہباز شریف نے یہ منصب سنبھالا اور وہ تقریباً سوا سال اس منصب پر فائض رہے۔

نگران سیٹ اپ

توقع ہے کہ وزیراعظم اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض سے ملاقات کریں گے جس میں عبوری وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔

وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد بھی 3 روز تک اس معاملے پر مشاورت کر سکتے ہیں، اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیا جائے گا۔

گزشتہ روز ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں میزبان عادل شاہ زیب سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ نگران وزیر اعظم کے عہدے کے لیے ابھی کوئی نام فائنل نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا تھا کہ میری اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ اتحادیوں سے اس بارے میں مشاورت چل رہی ہے جو ایک دو روز میں مکمل ہو جائے گی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا نگران وزیراعظم مسلم لیگ (ن) سے بھی ہو سکتا ہے تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ نگران وزیراعظم کو کسی بھی قسم کے سیاسی اثرورسوخ سے پاک ہونا چاہیے اور امید ہے کہ اتحادی جماعتیں مل کر ایک ایسا فیصلہ کریں گی جو عمومی طور پر لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔

اپوزیشن نے 3 نام فائنل کرلیے

دریں اثنا اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وزیراعظم سے ان کی ملاقات آج (بدھ) کو ہوگی جس میں معاملات طے کیے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ ’صحیح وقت‘ پر مشاورت ہو گی۔

اپوزیشن لیڈر کے مطابق انہوں نے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کا عمل مکمل کر لیا ہے اور عبوری وزیر اعظم کے لیے 3 نام فائنل کرلیے ہیں۔

بعد ازاں راجا ریاض نے ’آج نیوز ’ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اپوزیشن کے اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد نگران وزیر اعظم کے لیے ناموں کو حتمی شکل دی گئی۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ان میں کوئی سیاستدان شامل نہیں ہے لیکن ایک ماہر معاشیات کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے، اگر حکومت تجویز کرے تو ہم نگران وزیر اعظم کے لیے کسی سیاستدان کے نام پر بھی غور کر سکتے ہیں۔

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ راجا ریاض ایک ’فرینڈلی اپوزیشن لیڈر‘ ہیں اس لیے وہ نگران وزیر اعظم کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف کے منتخب کردہ نام کی مخالفت نہیں کریں گے۔

انتخابات میں ممکنہ تاخیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے راجا ریاض نے کہا کہ اصولاً انتخابات 3 ماہ کے اندر کرائے جانے چاہئیں لیکن تازہ مردم شماری کی منظوری نے معاملات کو پیچیدہ بنا دیا ہے، میرے خیال میں انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر ہو گی۔

واضح رہے کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ 2023 کی مردم شماری نوٹیفائی ہونے کے بعد حلقہ بندیوں کی وجہ سے عام انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے، انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ انتخابات آئندہ برس مارچ تک ملتوی ہو سکتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024