ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ نکلنا پاکستان کی بڑی کامیابی تھی، بلاول
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے باہر نکلنا پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی، ہم ناصرف ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلے بلکہ ہم نے دو ایکشن پلان وقت سے پہلے مکمل کیے۔
بلاول نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالا تھا تو پاکستان کی خارجہ پالیسی شدید دباؤ کا شکار تھی، ملک میں سیاسی کشیدگی اور سنگین معاشی منظرنامے کے سبب صورتحال انتہائی خراب تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر سی پیک کے حوالے سے ہمارے عزائم پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے، امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات بدترین سطح پر تھے، خلیجی ممالک کے ساتھ ہماری روایتی شراکت داری ابھی کچھ اچھی نہ تھی، جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے ساتھ ساتھ یورپ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات پر غیریقینی کے بادل چھائے ہوئے تھے، ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ تھے اور آئی ایم ایف کے حوالے سے اعتماد کی کمی بلند ترین سطح پر تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ہمیں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کے خطرے کے چیلنجز درپیش تھے، اس سے قبل کہ ہم سمجھتے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہی کے زیر اثر آ گیا اور سیلاب کے پیش نظر ہمیں فوری طور پر مقامی ضروریات پوری کرنے کا چیلنج درپیش تھا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میں یہ دعویٰ تو نہیں کروں گا کہ ہم نے سب کچھ حاصل کر لیا لیکن ہم نے میری توقعات سے کافی زیادہ اہداف حاصل کر لیے، ہم نے حال ہی میں سی پیک کی 10سالہ سالگرہ منائی ہے جس میں چینی نائب صدر نے بھی شرکت کی، ہمیں چین سے جو معاشی اور سیاسی مدد میسر آئی اس نے مجھے پاکستان کے دیرینہ دوست کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا اعتماد بخشا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے تین سینئر اعلیٰ سطح کے وفود نے پاکستان کا دورہ کیا، گزشتہ ایک سال کے دوران امریکی حکومت کے ساتھ مسلسل اعلیٰ سطح کے رابطے برقرار رکھے گئے اور مجھے خوشی ہے کہ اب ہم راستے پر آ چکے ہیں جہاں سے ہم امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات دوبارہ تعمیر کر سکتے ہیں اور چین اور امریکا دونوں کے ساتھ تعلقات میں مثبت راہیں متعین کرتے ہوئے پاکستان نے اپنا موقف برقرار رکھا کہ پاکستان نہیں چاہتا کہ اسے کسی عالمی مسابقت کا حصہ بنایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یوکرین کے حوالے سے اپنا اصولی موقف برقررا رکھا حالانکہ اس حوالے سے میڈیا میں کافی خدشات پائے جاتے تھے، اس معاملے پر متعلقہ قراردادوں پر ہمارا ووٹنگ کا طریقہ کار برقرار رکھا اور ہم نے دو فریقین کے ساتھ رابطے برقرار رکھنے کے لیے اپنی بہترین کوششیں کیں اور میرا ماننا ہے کہ آج پاکستان کے موقف زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی ان تمام ممالک کے ساتھ معنی خیز بات چیت کی بدولت ہمیں آئی ایم ایف بورڈ میں بیٹھے ممالک کے ساتھ اعتماد سازی میں بھی مدد ملی جہاں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بالآخر خوش آئند طریقے سے طے پا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کی بھرپور معاونت کی جو اس بات کی عکاسی ہے کہ ہمارے روایتی دوست ہمارے ساتھ کھڑے ہیں.
انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے باہر نکلنا پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی، ہم ناصرف ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکلے بلکہ ہم نے دو ایکشن پلان مکمل کیے، وقت سے پہلے مکمل کیے اور وقت سے پہلے گرے لسٹ سے نکلے، وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے اس معاملے کی قیادت کی اور انہوں نے شوشا کے بجائے محنت اور لگن کے ساتھ یہ کام کیا، یہی وجہ ہے کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل سکے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مزید کہا کہ افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی بہت واضح ہے، ہم اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کے لیے جو ہو سکا وہ کریں گے، ہم نے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مسلسل روابط برقرار رکھے اور ان کے ساتھ سیکیورٹی، بارڈر کنٹرول، مارکیٹ، کامرس، صحت، ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت دوطرفہ تعاون کے تمام امور پر تعاون کیا لیکن پاکستان کا امن اور سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام سفارتی کوششوں کے دوران ہم نے کشمیر کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، اس سال بھارت کے شہر گووا میں شنگھائی تعاون تنظیم وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے دوران بھی میں نے جبر تو تسلط کے سائے میں رہنے والے کشمیر کے عوام کے لیے آواز بلند کی اور مختلف فورمز پر مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لیے حمایت جاری رکھی۔
انہوں نے کہا کہ 15 مارچ کو اسلاموفوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار تو دیا جا چکا تھا لیکن اس کو منانے کا کوئی طریقہ کار نہیں تھا، ہم نے تاریخ رقم کی اور اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ دن منایا لیکن افسوس کی بات ہے کہ اسلاموفوبیا اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات جاری رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اقوام متحدہ کے فورم سے دنیا کو بتا دیا کہ اسلاموبیا اور قرآن کی بے حرمتی کے واقعات کسی صورت قبول نہیں اور پوری امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے پاکستان نے دنیا کو باور کرایا کہ اسلاموفوبیا کے واقعات تشدد کا باعث ہیں اور ان پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگست 2019 کے بعد پاکستان کا موقف واضح ہے کہ جب تک بھارت اپنا غیرقانونی یکطرفہ اقدامات سے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزیاں نہیں چھوڑے گا، ہمارے دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزیوں پر نظرثان نہیں کرے گا، پاکستان کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ ہم ان کے ساتھ معنی خیز مذاکرات اور بات چیت کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ان شرائط کے باوجود ہم نے پاکستان کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا، میں 11 سے 12سال بعد پہلا وزیر خارجہ تھا جو بھارت گیا حالانکہ وہاں میرے سر کی قیمت مقرر کی ہوئی تھی لیکن چونکہ ہمارا حق تھا کہ ہم پاکستان کا موقف سامنے رکھتے تو ہم نے پوری دلجمعی سے یہ کام پورا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پاک۔ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے اور ہم چاہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ جلد از جلد مکمل ہو اور اس طریقے سے مکمل ہو جس سے پاکستان یا ایران کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے، پاکستان کے عوام ما کستقبل اسی میں ہے کہ ہم اپنے ایران جیسے پڑوسی کے ساتھ توانائی اور دیگر چیزوں کی تجارت کریں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں کہا کہ ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنا پڑے گا، یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اپنے ملک میں امن قائم کریں، ہمارے ملک میں معاشی ترقی ہو اور جو لوگ تنقید کرنا چاہیں بھی تو انہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کی غلط فہمی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں وزیراعظم بننے کے لیے امریکا گیا، وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا یہ فیصلے کرتا ہے، ہم جانتے ہیں کہ یہ فیصلے پاکستان کے عوام کرتے ہیں، میں کسی لابنگ فرم پر خرچ نہیں کررہا، نہ اپنے کارکنوں کو کانگریس مین کے پاؤں پکڑنے لیے بھیج رہا ہوں کہ اپنے ذاتی مسئلے کے لیے میرے ملک کے خلاف بیان دے۔
بلاول نے کہا کہ میرے امریکا کے دورے ضرور ہوئے، بدقسمتی سے مجھ سے پہلے جو حکومت آئی ان کی ایک ایسی سوچ تھی جس سے تعلقات کو نقصان پہنچایا گیا اور ہم اس نقصان کو درست کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن میں ایک بات درست کرنا چاہتا ہوں کہ امریکا جاتا ہوں تو وہ صرف دورہ امریکا نہیں ہوتا، جب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے کام ہوتا ہے تو واشنگٹن ڈی سی جاتا ہوں اور اقوام متھدہ سے کوئی کام ہوتا ہے تو نیویارک جاتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ چاہے میں جی 77 کے اجلاس کے لیے نیویارک گیا یا او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے لیے گیا، ہمارے مخالفین نے کہا کہ دیکھو امریکا کے دورے پر چلا گیا، اب ان کو کون سمجھائے کہ امریکا اور اقوام متحدہ کے دورے میں فرق ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کا کام ہی یہی ہے کہ وہ باہر جا کر دورے کرے، درحقیقت وزیراعظم بننے کی خواہش پر اگر میں توجہ دیتا تو مجھے زیادہ وقت پاکستان میں گزارنا چاہیے تھا کیونکہ وزیر خارجہ کے دفتر میں مصروفیت کی وجہ سے میں اپنی پارٹی کے لیے انتخابی مہم چلانے یا ان کی قیادت کا موقع نہیں ملا اور اسے کافی نقصان پہنچا ہے۔