آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم کے خلاف درخواست پر حکومت کو نوٹس جاری
لاہور ہائی کورٹ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں حالیہ ترامیم کے خلاف درخواست پر وفاقی حکومت اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
مقامی وکیل محمد مقسط سلیم کی جانب سے گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی جس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو آئین کے خلاف قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ عجلت میں منظور کیا گیا ہے، ایکٹ کے تحت سیکیورٹی اداروں کو وسیع اختیارات دے دیے گیے ہیں۔
درخواست میں بتایا گیا کہ سیکیورٹی ادارے بغیر کسی ورانٹ کے شہریوں کے گھر داخل ہو سکتے ہیں، سیکیورٹی ادارے کسی بھی شخص یا شہری پر ملک دشمنی کا الزام لگا سکتے ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ترامیمی ایکٹ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، عدالت آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ 2023 کو کالعدم قرار دے۔
مذکورہ درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن نے آج سماعت کی، دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ پاکستان ہمارا گھر ہے، ہم نے اپنے گھر کے ساتھ کیا کیا، جو بھی ہوا اس کی پہلے کہیں مثال نہیں ملتی، جو ہوا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
دریں اثنا عدالت نے وکیل محمد مقسط سلیم کی جانب سے دائر درخواست پر وفاقی حکومت، وزارت قانون و انصاف، قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیا ہے؟
یاد رہے کہ رواں ماہ یکم اگست کو قومی اسمبلی سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت سیکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ کے چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار دیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 بل میں کہا گیا تھا کہ ذیلی شق 2 اے کے تحت خفیہ ایجنسیوں کو بغیر وارنٹ چھاپہ مارنے اور دستاویزات قبضے میں لینے کا اختیار ہو گا اور ملک دشمن سرگرمی میں ملوث کسی شخص سے متعلق معلومات رکھنے پر بھی سیکریٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہو گی۔
بل کے سیکشن 6 اے میں تجویز دی گئی کہ پاکستان کے مفاد، یا دفاع، امن عامہ یا کسی خفیہ عہدیدار اور کسی بھی خفیہ ایجنسی کے رکن، خبر دینے والے یا ذرائع کی شناخت افشا کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
قومی اسمبلی سے منظور ترمیمی بل میں کہا گیا کہ ترمیمی بل کے ذریعے خفیہ دستاویزات، اسلحہ، خفیہ ایجنسی کی تعریف بھی بدل دی گئی ہے۔
بل میں کہا گیا کہ مسلح افواج کی جانب سے جنگی مشقیں، تربیت، ریسرچ یا ترقی، فوجیوں کی نقل و حرکت کے لیے زیر قبضہ جگہ میں مداخلت ممنوع ہوگی، اسی طرح کوئی جگہ، زمین، عمارت یا جائیداد جو پاکستان میں یا دنیا میں کہیں بھی موجود ہو، یا محفوظ معلومات تک رسائی اور اس کے استعمال کی قانونی طور پر ممانعت ہوگی۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت مسلح افواج کی تنصیبات، مشقوں کی جگہ، تحقیقی مراکز پر حملہ بھی قابل تعزیر جرم تصور ہوگا اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شقوں کی خلاف ورزی پر سزائیں اور جرمانے بھی بڑھا دیے گئے۔
ترمیمی بل میں کہا گیا کہ دستاویز میں ڈیجیٹل آلات، فائلز، کمپیوٹرز، پلانز، نقشے، ڈرائننگ کی رازداری افشا کرنا بھی جرم ہوگا، عسکری نوعیت کی خرید و فروخت سے متعلق معاہدوں کی تفصیلات افشا کرنا بھی قابل تعزیر جرم ہوگا۔
بل میں کہا گیا کہ براہ راست، ارادتاً یا غیراداری طور پر پاکستان یا ملک سے باہر غیر ملکی طاقت، ایجنٹ یا غیرریاستی گروہ کے لیے کام کرنا، ملک یا بیرون ملک غیر ملکی ایجنٹ سے ملنا، گھر جانا یا بات کرنا بھی جرم ہوگا۔
ترمیمی بل کے مطابق اس ایکٹ کے تحت مقدمات خصوصی عدالتوں میں سننے کی منظوری ہوگی اور مقدمات کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحققیاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے گی، جو 30 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی۔
بل میں کہا گیا کہ سیکشن 12 بی کے تحت تفتیش کے دوران جمع کیا گیا مواد بشمول الیکٹرونک ڈیوائسز، ڈیٹا، انفارمیشن، ڈاکیومنٹس یا اسی طرح کا دیگر مواد جو جے آئی ٹی کو اس سیکشن کے تحت تفتیش میں سہولت فراہم کر رہا ہو۔
قومی سمبلی سے منظور ترمیمی بل میں کہا گیا کہ غیر ملکی ایجنٹ سے تعلق کی بنیاد پر 3 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
تاہم سینیٹ میں بعض قانون سازوں کی شدید مخالفت کے باعث بل کو جائزے کے لیے متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا تھا، کمیٹی نے بل میں ترامیم کی تجویز دی تھی اور اسے منظوری کے لیے واپس سینیٹ بھیج دیا گیا تھا۔
بل کے اصل مسودے میں کچھ تبدیلیاں کرنے کے بعد 6 اگست کو اسے سینیٹ سے بھی منظور کر لیا گیا تھا۔
بل میں کی گئی سب سے اہم تبدیلی اس شق کو حذف کرنا تھی جس کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مشتبہ افراد کو بغیر وارنٹ گرفتار کرنے یا تلاشی لینے کا اختیار دیا جانا تھا۔