سپریم کورٹ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسکینڈل سے متعلق درخواست واپس کردی
سپریم کورٹ نے سوشل میڈیا فورمز پر اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور میں حالیہ اسکینڈل سے متعلق ویڈیو کلپس یا تصاویر کو لیک ہونے سے روکنے کے لیے پولیس کو ہدایت جاری کرنے کی درخواست واپس کر دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذوالفقار احمد بھٹہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت استدعا کی گئی تھی کہ پولیس کی تفتیشی ٹیم کو یہ بات کو یقینی بنانے کا حکم دیا جائے کہ برآمد شدہ ویڈیو کلپس اور تصاویر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے لیک یا نشر نہ ہوں۔
یہ درخواست حال ہی میں میڈیا میں ان الزامات کے بعد دائر کی گئی تھی کہ یونیورسٹی میں طالب علموں کو کھلے عام منشیات فروخت کی جا رہی ہیں اور یہ کہ نامعلوم عناصر طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں قابل اعتراض ویڈیوز اور طالبات کی تصاویر کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
رجسٹرار آفس کی جانب سے درخواست کو ناقابل غور قرار دیتے ہوئے اعتراض کیا گیا کہ درخواست گزار نے انفرادی شکایت کے ازالے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے غیر معمولی دائرہ اختیار کو استعمال کیا جو کہ قانون کے تحت جائز نہیں تھا۔
رجسٹرار نے اپنے نوٹ میں مزید کہا کہ درخواست میں استدعا کی گئی تھیں جس میں درخواست گزار نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کے کون سے معاملات شامل ہیں تاکہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو براہ راست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت استعمال کیا جائے۔
رجسٹرار نے کہا کہ مزید برآں درخواست گزار نے اسی ریلیف کے لیے قانون کے تحت دستیاب کسی دوسرے فورم سے رجوع نہیں کیا اور ایسا نہ کرنے کا کوئی جواز بھی فراہم نہیں کیا۔ شفافیت اور انصاف
اپنی درخواست میں ذوالفقار بھٹہ نے استدعا کی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور حکام کے مبینہ ملوث ہونے کے پیش نظر اساتذہ اور طلبا کی یہ خواہش ہے کہ عدالتی نگرانی کو یقینی بنایا جائے اور یہ کہ پوری تفتیش میں ’شفافیت اور انصاف پسندی‘ کو برقرار رکھا جائے۔
درخواست میں یہ ہدایت بھی جاری کرنے کی استدعا کی گئی تھی کہ پنجاب پولیس کے سربراہ اور ایف آئی اے سمیت تفتیش سے متعلق کسی بھی افسر کو سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر معطل، تبدیل یا واپس نہیں بلایا جائے۔
درخواست گزار نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے 31 جولائی کو بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کو پولیس اور ایف آئی اے کی تحقیقات مکمل ہونے تک کام سے روکنے کا کہا جائے۔