پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین نادرا کو آڈٹ میں مزاحمت پر گرفتاری کی وارننگ
موجودہ قومی اسمبلی کی تحلیل میں چند گھنٹے باقی رہ گئے جب کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے چیئرمین کو خبردار کیا ہے کہ وہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو اپنے ریکارڈ تک رسائی فراہم کریں ورنہ گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نادرا کے چیئرمین کو یہ ہدایت وزارت داخلہ کے ذریعے جاری کی گئی، اس سے قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نوٹ کیا کہ متعدد بار طلب کیے جانے کے باوجود وہ پی اے سی کے اجلاسوں میں پیش نہیں ہوئے۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت اجلاس میں وزارت داخلہ 20-2019 سے متعلق آڈٹ اعتراضات پر غور کیا۔
ایم این اے نور عالم خان نے کہا کہ ہم وزارت داخلہ کے ذریعے چیئرمین نادرا کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہیں، اگر وہ اس سے انکار کرتے ہیں تو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اور انہیں گرفتار کیا جائے، جب کہ انہوں نے پی اے سی کے سیکریٹری کو بھی یہ ہدایت کی کہ وہ وزیر اعظم کو متعدد بار طلب کیے جانے کے باوجود ان کی مسلسل غیر حاضری کے بارے میں لکھیں۔
پی اے سی کے چیئرمین نے ایف آئی اے سے نادرا ٹیکنالوجیز لمیٹڈ (این ٹی ایل) سے ڈیٹا حاصل کرنے پر پیش رفت طلب کی جو متعلقہ محکموں کو اپنے اکاؤنٹس تک رسائی سے انکار کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ پی اے سی کے چیئرمین نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے کہا کہ کوویڈ 19 کی وبا کے دوران تقریباً 640 افراد کے درمیان 3 ارب ڈالر کے ٹمپریری اکنامک ری فنانس فیسیلٹی قرض کی تقسیم کے معاملے کی انکوائری جاری رکھی جائے۔
گزشتہ ہفتے نور عالم خان نے نیب کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کی قیادت کرے اور اسکیم سے فائدہ اٹھانے ہونے والوں اور ان بینکوں کی تفصیلات جمع کرائے جنہوں نے 4 روز کے اندر پوری رقم ادا کی۔
اجلاس کے دوران کمیٹی نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اربوں ڈالر صرف مخصوص صنعت کاروں اور بڑے کاروباروں میں کیوں تقسیم کیے گئے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کو کیوں نہیں دیے گئے۔
ایم این اے برجیس طاہر نے قرض کی سہولت سے مستفید ہونے والے 640 افراد کی فہرست پیش کرنے کا دوبارہ مطالبہ کیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے رقم کی تقسیم کے نتائج کی تفصیلات طلب کیں کہ کیا یہ رقم مطلوبہ مقصد کے لیے استعمال کی گئی۔
نور عالم خان نے کہا کہ پاکستانی عوام کو یہ جاننا چاہیے کہ معاشی بحران کے دوران 3 ارب ڈالر کیسے استعمال ہوئے۔