• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

مریم اورنگزیب کا پیمرا ترمیمی بل واپس لینے کا اعلان

شائع August 7, 2023
مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا فورم ہے وہاں آکر رائے دینے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں سمجھتی —فوٹو: ڈان نیوز
مریم اورنگزیب نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا فورم ہے وہاں آکر رائے دینے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں سمجھتی —فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023 واپس لینے کا اعلان کر دیا۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس کنوینیر فوزیہ ارشد کی زیر صدارت ہوا جہاں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا۔

اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیمرا کے پرانے سیاہ قانون کو ختم کرنا چاہتے تھے، چار سال اپوزیشن میں رہتے ہوئے میڈیا کے ساتھ کام کیا، مخلصانہ سوچ اور بڑی محنت سے یہ بل تیار کیا تھا، بعض شقوں کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کا احترام کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آئینی و جمہوری سوچ پر کوئی سمجھوتہ کبھی کیا ہے اور نہ ہی کبھی کر سکتے ہیں، میڈیا، اظہار رائے اور شہری آزادیوں کے آئینی حق پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ جبر، آمریت اور فسطائیت کے خلاف میڈیا کے ساتھ مل کر ہمیشہ جدوجہد کی، ایسا کوئی اقدام نہیں کر سکتے جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ ہمیں میڈیا کی آزادی عزیز نہیں، میڈیا کی نمائندہ تنظیمیں اور تمام اسٹیک ہولڈرز پہلے دن سے مشاورت اور بل کی تیاری کا حصہ رہے، پہلے دن سے یہی کہا تھا کہ متفقہ طور پر ہی بل منظور کرائیں گے۔

اجلاس میں صحافی تنظیموں کے نمائندوں، صحافیوں اور رپورٹرز نے کھڑے ہو کر بل کی حمایت کا اعلان کیا، کمیٹی ارکان اور صحافیوں کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات پر زور دیا گیا کہ وہ بل واپس لینے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

صحافی رہنما افضل بٹ کا کہنا تھا کہ بہت سال بعد ایسا بل آیا ہے جو صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے بنا ہے، صحافیوں کی صورتحال انتہائی ابتر ہے، ہم خود متوسط طبقے کے لوگ ہیں، مالکان صحافیوں کو تنخواہیں ادا نہیں کرتے، یہ بل صحافیوں کی سپورٹ کے لیے ہے، اسے واپس نہ لیا جائے۔

شکیل مسعود نے کہا کہ پیمرا (ترمیمی) بل صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی ضرورت ہے، تمام میڈیا انڈسٹری کے لیے بل اہم ہے، میری رائے ہے کہ بل واپس نہیں لینا چاہیے۔

صدر اے پی این ایس سرمد علی نے کہا کہ بل کی ایک ایک شق پر مشاورت ہوئی، ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس 2002 پرویز مشرف کا کالا قانون تھا، آرٹیکل 19 کو پیمرا بل میں ڈالنے کا مطلب آزادی اظہار رائے کو یقینی بنانا ہے، بل پر تمام اراکین اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بل میں ادھر چھوڑ کر جا رہی ہوں جو حکومت بھی آئے گی وہ بل پر بحث کر لے گی، اگلی حکومت جو بھی آئے بل کو آگے لے کر جانے میں اپنا کردار ادا کروں گی۔

کمیٹی کے رکن کامران مائیکل نے کہا کہ پیمرا (ترمیمی) بل 2023 میں صحافیوں اور ورکرز کی بہبود کے لیے اقدامات منظور کرنے چاہئیں۔

’بل پر مختلف تجاویز اور آرا سامنے آئی ہیں، ان پر غور و فکر کیا جائے گا‘

بعد ازاں پارلیمنٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے کہا کہ میں تنقید سے نہیں گھبراتی، مسجد نبوی میں گالم گلوچ کی گئی، لندن میں بدکلامی کی گئی جسے میں نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا، میں تنقید سے نہیں ڈرتی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 12 مہینے صحافیوں کے تحفظ کے لیے، مس انفارمیشن، ڈس انفارمیشن کے تدارک اور آزادی اظہار رائے کے آئینی حق سے متعلق شقوں کو اس میں شامل کیا، اس کو از سر نو ترتیب دیا، مختلف تنظیموں سے مشاورت کی، پھر الزامات لگانے شروع کردیے گئے کہ میں نے بل میں کالے قانون ڈال دیے جب کہ ہم نے میڈیا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون بنانے میں محنت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب مختلف تجاویز اور آرا سامنے آئی ہیں، ان تجاویز پر غور و فکر کیا جائے گا، اگر وہ بہتر ہوئیں تو انہیں اس بل میں شامل کیا جائے گا، ہماری حکومت کے پاس 2 دن باقی ہیں جس میں اس پر مشاورت نہیں ہوسکے گی، اس لیے اب آنے والی حکومت اس پر کام کرے گی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں کراچی گئی تو وہاں کہا گیا کہ آپ زبان بندی اور میڈیا کا گلا گھونٹ رہی ہیں، کس کے کہنے پر آخری دو روز میں یہ کالا قانون منظور کروا رہی ہیں، اس سے زیادہ افسوسناک بات نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ جو کہ قانون سازی کا فورم ہے وہاں آکر رائے دینے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش نہیں سمجھتی، ان کی رائے کا احترام ہے، دوبارہ آکر اس پر کام کریں گے، جو بھی حکومت آئے گی وہ اس پر کام کرے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ترمیمی بل 2023 دو اضافی شقوں کے ساتھ منظور کرلیا گیا تھا جس کے تحت ڈس انفامیشن آن ائر نہ جانے کی یقین دہانی لازمی ہوگی۔

پیمرا ترمیمی بل میں براڈکاسٹر کے لیے شفاف اور غیر جانب دار ریٹنگ اور یہ یقین دہانی لازمی قرار دی گئی ہے کہ کوئی ڈس انفارمیشن آن ائر نہیں کی جاسکے گی، مستند خبر کے زمرے میں حالات حاضرہ، مذہبی امور، قومی مفاد سمیت معاشرے سے متعلق تمام شعبہ جات آئیں گے۔

ٹی وی چینل کے ضابطہ کار میں ’ڈس انفارمیشن‘ نشر نہ کرنے کی شرط شامل کی گئی ہے، ترمیمی بل میں ڈس انفارمیشن کی وضاحت بھی کردی گئی ہے، جس کے مطابق ڈس انفارمیشن سے مراد جان بوجھ کر غلط معلومات دینا ہے۔

بل میں ڈس انفارمیشن کی تعریف یوں کی گئی ہے کہ ڈس انفارمیشن سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، سازباز سے تیار کردہ یا جعلی ہو، ایسی خبر ڈس انفارمیشن کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لیے دی گئی ہو اور متعلقہ شخص کا مؤقف لیے بغیر دی گئی ہو تو وہ خبر ’ڈس انفارمیشن ’کی تعریف میں شامل ہوگی۔

واضح کیا گیا ہے کہ متاثرہ شخص کا مؤقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طرح اس کے خلاف ’ڈس انفارمیشن‘ دی گئی ہو، اسی طرح مس انفارمیشن سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہوگیا ہو۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل-19 کی خلاف ورزی کے زمرے میں آنے والی خلاف ورزی اس بل کے تحت ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہوگی۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے بل میں الیکٹرونک میڈیا کے لیے کہا گیا ہے کہ معمول کے پروگرام کے دوران 5 منٹ سے زیادہ کا اشتہار نہیں چلایا جاسکے گا اور معمول کے پروگرام میں دو بریک کے دوران دکھائے جانے والے اشتہارات کا دورانیہ 10 منٹ سے کم نہیں ہوگا۔

بل میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی چینل کے پروگرام کا کنڈٹ ٹمپرڈ لوگو کے ساتھ سوشل میڈیا پر نہیں ڈالا جاسکے گا، الیکٹرونک میڈیا مصدقہ خبروں، معاشرے میں تحمل کے فروغ کا مواد اپنی نشریات میں استعمال کرے گا۔

پیمرا ترمیمی بل میں کہا گیا کہ عمومی ترقی، توانائی، معاشی ترقی سے متعلق مواد بھی نشریات میں شامل کیا جائے گا۔

پیمرا ترمیمی بل 20- اے کی نئی شق میں الیکٹرانک میڈیا کو ملازمین کی بر وقت تنخواہوں کی ادائیگی کا پابند کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ بروقت ادائیگی سے مراد الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کو دو ماہ کے اندر کی جانے والی ادائیگیاں ہیں۔

بل کی نئی شق 20- بی کے تحت الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا اورشکایات کونسل کے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے تمام فیصلوں اور احکامات کی پاسداری کا پابند بنایا گیا ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا ہے کہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتی اشتہارات متعلقہ الیکٹرونک میڈیا کو فراہم نہیں کیے جائیں گے۔

ترمیم کے تحت براڈ کاسٹ میڈیا کا لائسنس 20 سال کے لیے اور ڈسٹری بیوشن لائسنس 10 سال کی مدت کے لیے کارآمد ہوگا، تاہم نافذالعمل فیس ادا کرنا ہوگی لیکن اس میں سالانہ مجموعی تشہیری آمدن شامل نہیں ہوگی۔

بل میں پیمرا اراکین کی تعداد کے حوالے سے بھی ترمیمی کی گئی ہے، سیکشن 6 میں ترمیم کرکے ارکان کی متعین تعداد ختم کرکے پیمرا اراکین کی تقرری کا اختیار صدر پاکستان کو دیا گیا ہے۔

پیمرا اراکین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ بوقت ضرورت چیئرمین پیمرا کے سفارش کردہ ارکان کی تعیناتی ہوگی، یہ ارکان بغیر ووٹنگ کے مقرر ہوں گے اور یہ اعزازی طور پر کام کریں گے۔

ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کے دو ارکان میں سے ایک براڈ کاسٹرز اور دوسرا پی ایف یو جے کا نمائندہ ہوگا، پیمرا کا اجلاس اب وڈیو لنک اور سرکولیشن کے ذریعے بھی منعقد ہوسکے گا۔

ترمیمی بل میں پیمرا کے اختیارات چیئرمین، کسی رکن یا اتھارٹی کے افسر کو تفویض ہوسکیں گے، ان اختیارات میں کیبل ٹی وی کے سوا کسی براڈکاسٹ میڈیا یا ڈسٹری بیوشن کا لائسنس دینے، منسوخ کرنے یا ختم کرنے کا اختیار شامل نہیں ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ عوام، اداروں اور دیگر کی شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں شکایات کونسلز بنائی جائیں گی جو الیکٹرانک میڈیا میں کم ازکم تنخواہ کی حکومتی پالیسی، بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کا نفاذ یقینی بنائیں گی۔

شکایات کونسلز الیکٹرونک میڈیا کے خلاف شکایات کی سماعت، اپنی آرا اور سفارشات پیمرا کو ارسا ل کریں گی۔

پیمرا ترمیمی بل 2023 میں کہا گیا ہے کہ شکایت کونسل ایک چئیرمین اور 5 ارکان پر مشتمل ہوگی، اس میں کام کرنے والے افراد کی مدت دو سال کے لیے ہوگی۔

بل میں سزاؤں کا تعین بھی کیا گیا ہے، جس کے مطابق 29- اے کے نئے سیکشن کے تحت 10 لاکھ جبکہ سنگین خلاف ورزی پر ایک کروڑ روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔

پیمرا کے فیصلوں کے خلاف متعلقہ صوبے کے ہائی کورٹ میں اپیل کی جاسکے گی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024