’عمر شریف عوام کے سامنے سُپر اسٹار لیکن کیمرے کے پیچھے روحانی انسان تھے‘
پاکستان کے لیجنڈری اداکار، ’کامیڈی کے بے تاج بادشاہ‘ کہلائے جانے والے عمر شریف کے بیٹے جواد عمر کہتے ہیں کہ ان کے والد لوگوں کے سامنے بہت بڑے سُپر اسٹار تھے لیکن کیمرے کے پیچھے روحانی انسان تھے۔
جواد عمر نے سما ٹی وی کے پروگرام میں پہلی بار شرکت کی جہاں انہوں نے اپنے والد (عمر شریف) کی سنہری یادوں کو دہرایا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عمر شریف صرف اداکار ہی نہیں بلکہ میزبان، فلم ساز، ہدایت کار، شاعر، موسیقار، کہانی نویس اور مصور بھی تھے، وہ 66 برس کی عمر میں 2 اکتوبر 2021 کی دوپہر کو دورانِ علاج جرمنی میں انتقال کرگئے تھے۔
ان کا اصل نام محمد عمر تھا اور پیشہ ورانہ طور پر وہ عمر شریف کے نام سے جانے جاتے تھے اور اسی نام سے انہوں نے شہرت پائی۔
انہیں جنوبی ایشیا کے نامور و بڑے کامیڈینز میں سے ایک مانا جاتا ہے جبکہ انہیں پاکستان میں کامیڈی کے بے تاج بادشاہ کا لقب بھی دیا گیا۔
عمر شریف نے 14 برس کی عمر میں اپنے کریئر کا آغاز ایک اسٹیج ڈرامے سے کیا اور طنز و مزاح کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا تھا۔
گزرتے وقت کے ساتھ عمر شریف نے اپنے چٹکلوں اور مکالموں سے ملک بھر میں مقبولیت پائی۔
عمر شریف کے بیٹے جواد عمر نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا کہ ’والد صاحب لوگوں کے سامنے بہت بڑے سُپر اسٹار تھے لیکن کیمرے کے پیچھے روحانی انسان تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ والد نے ہمیں بہت عاجزی اور لوگوں سے پیار کرنا سکھایا ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں عام انسانوں کی خدمت کی ہے، والد نے یتیموں کی کفالت کی، ایسی بہت سی بیوہ عورتیں ہیں جن کا وہ گھر چلاتے تھے، انہوں نے بہت سارے فنکاروں کی مالی مدد بھی کی۔
جواد عمر نے بتایا کہ ’آخری لمحات میں بھی عمر شریف کو اپنے فن سے بہت پیار تھا، انہیں اپنے کام سے عشق تھا، بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود انہوں نے کئی پروگرامز کی میزبانی کی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ عمر شریف جیسا کوئی نہیں ہے، بہت مشکل ہے کہ ان جیسا کوئی شخص ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گھر میں عمر شریف بہت سنجیدہ انسان تھے، وہ اپنے ملک سے بہت پیار کرتے تھے، والد چاہتے تو کسی بھی ملک میں رہ سکتے تھے، انہیں کئی ممالک کی جانب سے شہریت کی آفر ہوئی لیکن انہوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ وہ پاکستان میں ہی رہیں گے اور پاکستان میں ہی مریں گے۔‘
جواد نے بتایا کہ عمر شریف نے اپنا وقت اپنے بچوں اور فیملی سے زیادہ عوام کو دیا ہے، ان کے تمام ڈراموں میں سماجی مسائل کے حوالے سے سبق ہوتا تھا، ان کے پروگرامز میں ہر چھوٹے، بڑے، بزرگ اور نوجوان شخص کے لیے پیغام ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ والد اپنے پروگرامز میں مزاحیہ انداز اپناتے لیکن گھر میں وہ ہمیشہ دینی ماحول رکھتے تھے، انہوں نے اپنے بچوں کو بھی دین سکھایا تھا۔
نامور کامیڈین کے بیٹے نے بتایا کہ عمر شریف کی پسندیدہ نمازوں میں ایک نماز صلوٰۃ التسبیح تھی، وہ رمضان کے موقع پر 27ویں شب کو فنکار برادری کے تمام دوستوں کو اپنے گھر بلاتے اور صلوٰۃ التسبیح پڑھتے تھے، ہمارے گھر جتنی بھی تقریبات ہوئیں ان کا اختتام ذکر الہیٰ پر ہوتا تھا۔
جواد عمر نے مزید بتایا کہ والد بہت اچھے ذاکر بھی تھے، وہ 3 سے 4 گھنٹے مسلسل دین پر بات کرتے تھے۔
عمر شریف کے بیٹے نے بتایا کہ ’مجھے نہیں یاد کہ ہمارے گھر کوئی شخص آیا ہے اور وہ خالی ہاتھ گیا ہو، کیونکہ جو بھی ہمارے گھر آتا والد انہیں کچھ نہ کچھ دیتے تھے، ان کا دسترخوان بھی بہت وسیع تھا، والد سے جو بھی ملنے آتا وہ کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جاسکتا۔‘
جواد نے بتایا عمر شریف حقیقی معنوں میں اپنے فن کے بادشاہ تھے اور اپنی زندگی میں بادشاہ تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں والد کے ساتھ ہمیشہ ساتھ رہتا تھا، میں ان کا سب سے بڑا فین ہوں، میں ان کا بیٹا بھی ہوں، اس کے علاوہ ان کا مینیجر بھی تھا، ملازم بھی تھا اور غلام بھی تھا۔‘
انہوں نے ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب بولی وڈ اسٹار امیتابھ بچن اور ہدایت کار ڈیوڈ دھون والد صاحب سے ملنے آئے تو وہ خود بہت ڈر رہے تھے کیونکہ وہ خود میرے والد کے بہت بڑے مداح تھے۔‘
جواد نے بتایا کہ ملاقات میں امیتابھ نے والد کو بتایا کہ انہوں نے والد کا ڈراما ’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘ کا ایک سین کاپی کیا تھا۔
جس پر ڈیوڈ دھون نے بتایا کہ ’ہم نے اس ڈرامے کو اتنا کاپی کیا کہ جہاں عمر شریف کھانستے ہیں وہیں پر امیتابھ بچن بھی کھانسے تھے جس پر عمر شریف نے کہا کہ مجھے تو ویسے ہی کھانسی آگئی تھی۔‘