• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm

’پاک چین گوادر یونیورسٹی کو لاہور میں کیوں قائم کیا جا رہا ہے؟‘ سوشل میڈیا پرنئی بحث چھڑ گئی

شائع August 3, 2023
فائل فوٹو:اے ایف پی
فائل فوٹو:اے ایف پی

قومی اسمبلی میں ’پاک چین گوادر یونیورسٹی‘ لاہور میں قائم کرنے کے بل کی منظوری کے بعد سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی ہے، صارفین نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ’احساس محرومیاں کیسے پیدا ہوتی ہیں یہ بل اس کی ایک جھلک ہے۔‘

معاملہ کچھ یوں ہے کہ کچھ روز قبل قومی اسمبلی میں نئی جامعات کے قیام کے ڈھیروں بلز پیش کیے گئے، 28 جولائی کو 24 نئی یونیورسٹیز کے قیام اور یکم اگست کو 7 نئی یونیورسٹیز کے قیام کے بلز کی منظوری دی گئی۔

ایک ہی دن متعدد بلز کی منظوری کی اپوزیشن کے علاوہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے کئی ارکان نے بھی شدید مخالفت کی۔

نئی جامعات کے قیام کے لیے منظور کیے گئے بلز میں سے ایک ’پاک چین گوادر یونیورسٹی‘ بھی شامل ہے اور اس یونیورسٹی کا نام اِس وقت سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے۔

معروف سینئر صحافی حامد میر نے اس بل کی کاپی سماجی پلیٹ پر شئیر کرتے ہوئے سوال اٹھایا تو پنجاب اور بلوچستان کے شہریوں کے درمیان ایک نئی بحث شروع ہوگئی۔

حامد میر نے ٹوئٹر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہماری قومی اسمبلی اپنی مدت کے خاتمے سے پہلے بغیر بحث کے دھڑا دھڑ بل پاس کئے جا رہی ہے۔‘

انہوں نے اعتراض اٹھایا کہ ’پاک چائنا گوادر یونیورسٹی‘ کو صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں کیوں قائم کیا جا رہا ہے؟

انہوں نے بل کی کاپی شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ذرا اس بل کے ٹائٹل پر غور کریں یہ پاک چین گوادر یونیورسٹی لاہور کا بل ہے، کیا کسی نے قومی اسمبلی میں یہ پوچھا کہ گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی کیوں بنائی جا رہی ہے؟‘

سینئر صحافی کی ٹوئٹ پر دیگر سوشل میڈیا صارفین نے تنقیدی ٹوئٹس کرتے ہوئے لکھا کہ ’گوادر کے نام سے لاہور میں یونیورسٹی قائم کرنا بلوچستان کے عوام کے ساتھ مذاق ہے۔‘

لاہور میں پاک چین گوادر یونیورسٹی قائم کرنے پر بلوچستان کے شہریوں کی جانب سے بھی سخت ردعمل دیا گیا، کئی صارفین نے دعویٰ کیا کہ ’بلوچستان کو سہولتوں سے جان بوجھ کر محروم کیا جارہا ہے۔‘

ایمن زرین نے لکھا کہ ’سری نگر ہائی وے اسلام آباد میں بن سکتی ہے تو گوادر یونیورسٹی لاہور میں کیوں نہیں‘

لالہ عزیز خان نامی صارف نے وزیراعظم سے اظہار شکوہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’آپ نے پاک چین گوادر یونیورسٹی کے مقام کے لیے لاہور کا انتخاب کرلیا، اب بلوچوں کی طرف سے ردعمل پورے پنجاب والوں کو ملے گا، احساس محرومیاں کیسے پیدا ہوتی ہیں یہ ان کی ایک جھلک ہے۔‘

نعیمہ بلوچ نامی صارف نے لکھا کہ ’اس سے بڑی ناانصافیاں ہوتی آرہی ہیں مگر گریبان کس پکڑیں؟ ہمارے اپنے بھی اس ہی قومی اسمبلی کا حصہ ہیں، نام بلوچستان کا مگر چین کے اسکالر شپ پر بھی پنجاب والے جارہے ہیں۔ ’

سابق جج اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی کے نام سے ٹوئٹر ہینڈل کے ذریعے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ’ گوادر یونیورسٹی پنجاب میں اس متعصبانہ فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں، تعلیم کے سوداگروں کی سہولت کاری کی خاطر بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی بڑھانا ملک دشمنی ہے، فوائد اشرافیہ اٹھاتی ہے اور نفرتوں کا سامنا پنجاب کے عوام کر کرنا پڑتا ہے، گوادر میں جدید یونیورسٹی دو۔’

فضا پتافی بلوچ نے لکھا کہ ’یہ نا انصافی ہے، لیکن کچھ تو ذمہ داری بلوچستان کے حکمرانوں کو بھی لینا پڑے گی‘۔

موہن ٹھاکر نامی صارف نے لکھا کہ ’ محروم ہونے کے درد کا تصور نہیں کیا جاسکتا، لاہور میں بلوچستان کی تمام جامعات سے زیادہ جامعات ہیں۔ گوادر کے لوگ اس یونیورسٹی کے مستحق ہیں۔’

مقدس زہری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ ’سی پیک کو بھی لاہور میں منتقل کرلیں، ویسے بھی آج تک بلوچستان کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

اسی حوالے سے جب ’کیہ بلوچ‘ نامی صارف نے ٹوئٹ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھا کہ ’ایسے وقت میں جب گوادر والوں کو شکایت ہے کہ انہیں چیک پوسٹوں کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کی مد میں کچھ نہیں ملا، تو گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی بنانے سے ان کی شکایات کو تقویت ملتی ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’لاہور میں جامعات بناؤ لیکن جہانگیر، شاہ جہاں، رنجیت سنگھ، ماؤ زے تنگ یا ژی جن پنگ کے نام پر بناؤ۔‘

جس پر وفاقی وزیر احسن اقبال نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ یونیورسٹی نہ تو سی پیک کے تحت ہے اور نہ ہی کسی سرکاری فنڈنگ کی ہے۔‘

انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ کسی نے نجی یونیورسٹی کا چارٹر منظور کروایا ہے جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’حکومت نے گوادر میں یونیورسٹی آف گوادر کے نام سے یونیورسٹی قائم کردی ہے اور اس کے نئے سیکڑوں ایکڑ پر مشتمل کیمپس کی تعمیر کے لئے فنڈنگ بھی جاری کی ہے۔‘

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024