باجوڑ دھماکا: جاں بحق افراد کی تعداد 54 ہوگئی، مقدمہ درج، داعش کے ملوث ہونے کا شبہ
خیبر پختونخوا کے ضلاع باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کنونشن میں ہونے والے دھماکے کا مقدمہ درج کرلیا گیا جب کہ سیکیورٹی اداروں نے دھماکے میں داعش کے ملوث ہونے کے شبہات سمیت دیگر پہلوؤں سے تحقیقات کا آغاز کردیا۔
گزشتہ روز ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں جے یو آئی (ف) کے متعدد مقامی عہدیداروں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 54 ہوگئی۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی شوکت عباس نے کہا کہ باجوڑ خودکش دھماکہ میں ہلاکتوں کی تعداد 54 ہوگئی اور 83 زخمی ہوئے۔
ایڈیشنل آئی جی شوکت عباس نے کہا کہ جلسہ دو بجے شروع ہوا اور 4 بجکر 10 منٹ پر دھماکہ ہوا، موقع سے بال بیرنگ وغیرہ ملے ہیں، دھماکہ خود کش تھا۔
ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے کہا کہ حملہ آور گروپ کی شناخت ہوئی ہے، دھماکہ میں کوئی خاص ٹارگٹ تھا، ابتدائی انکوائری میں ملزمان تک تقریبا پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ سے بہت سارے شواہد ملے ہیں، فرانزک رپورٹس آمد کا انتظار ہے، خودکش دھماکہ میں 10 سے 12 کلو گرام بارودی مواد استعمال ہوا ہے۔
قبل ازیں ڈی ایم ایس خار ہسپتال ڈاکٹر نصیب گل نے کہا تھا کہ باجوڑ دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 46 ہوگئی، ہمارے پاس اب تک 90 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔
ڈی ایچ او ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ دھماکے کے مزید تین زخمی دم توڑ گئے ہیں، شہدا کی تعداد 46 ہوگئی ہے، 90 سے زائد زخمی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 36 میتیں شناخت کے بعد ورثا اپنے ساتھ لے گئے، 8 لاشیں ناقابل شناخت ہونے کے باعث ہسپتال میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد لاپتا پیاروں کی تلاش میں ہسپتالوں میں معلومات حاصل کر رہے ہیں، شہدا میں بچے بھی شامل ہیں، دھماکے میں شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی۔
ایف آئی آر درج
باجوڑ دھماکے کی ایف آئی آر تھانہ سی ٹی ڈی باجوڑ میں درج کرلی گئی، اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خار نیاز محمد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں نامعلوم حملہ آور کو نامزد کیا گیا ہے۔
دھماکے کی ایف آئی آر میں دہشت گردی، قتل، اقدام قتل اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔
دھماکے کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری ٹیم نے جائے وقوع کا دورہ کیا، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) باجوڑ امجد خان نے کہا کہ جائے وقوع پر جیو فیکسنگ کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم نے جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کیے ہیں، تحقیقاتی ٹیم نے زخمیوں کے بیانات بھی قلمبند کیے ہیں۔
کور کمانڈر پشاور، آئی جی ایف سی کا باجوڑ کا دورہ
کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات اور آئی جی ایف سی باجوڑ پہنچے اور دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کی، اس کے علاوہ انہوں نے جائے وقوع کا دورہ کیا۔
کور کمانڈر اور آئی جی ایف سی کو کل ہونے والے دھماکے کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
کور کمانڈر نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں ہم افواج پاکستان اور باجوڑ کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
کور کمانڈر نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خار کا دورہ کیا، زخمیوں سے ملاقات کی اور ان کی خیریت دریافت کی، انہوں نے زخمیوں کے علاج کو یقینی بنانے کے احکامات جاری کیے۔
کور کمانڈر پشاور نے باجوڑ میں شہدا کے لواحقین سے بھی ملاقات کی۔
دوسری جانب باجوڑ دھماکے کے خلاف عنایت کلے بازار کی تاجر برادری نے شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کردیا، عنایت کلے بازار میں تمام دکانیں بند کردی گئیں۔
عنایت کلے بازار کی تاجر برادری نے کہا کہ دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے وقت سیکڑوں پارٹی کارکنان کے ساتھ مقامی رہنما بھی اجتماع میں موجود تھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ ایک پارٹی رہنما کنونشن سے خطاب کر رہے تھے کہ دھماکا ہوگیا، جے یو آئی (ف) کے عہدیداروں نے ڈان کو بتایا کہ جنرل سیکریٹری خار ضیا اللہ، جے یو آئی (ف) کے ضلعی پریس سیکریٹری مجاہد خان اور ان کا بیٹا بھی جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں، انہوں نے جاں بحق افراد کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا۔
ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 کے حکام کے مطابق دھماکا شام 4 بجے خار سے 2 کلومیٹر دور شانڈی کے علاقے میں ہوا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر صحت ریاض انور نے کہا تھا کہ دھماکے میں 44 افراد کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے جب کہ 100 سے زائد زخمی ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ ایک خودکش دھماکا تھا اور خودکش بمبار نے خود کو اسٹیج کے قریب دھماکے سے اڑا لیا۔
ایک عینی شاید نے ڈان کو بتایا کہ جلسہ گاہ میں کم ازکم 500 کرسیاں لگائی گئی تھیں جو مکمل طور پر بھر چکی تھیں اور بڑی تعداد میں لوگ کھڑے ہو کر بھی جے یو آئی(ف) کے قائدین کی تقاریر سن رہے تھے۔
سیکیورٹی حکام سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ’خودکش حملہ‘ تھا، ایک سینئر اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ممکنہ طور پر اس حملے میں داعش ملوث تھی، اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے۔
تاحال کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، سیکیورٹی حکام نے ڈان کو بتایا کہ ضلع میں بم دھماکے کے حوالے سے کوئی دھمکی نہیں تھی۔
حالیہ کچھ عرصوں میں داعش کا مقامی دھڑا جمعیت علمائے اسلام (ف) پر حملوں میں ملوث رہا ہے۔
سامنے آنے والی کچھ رپورٹس میں ضلع میں داعش کی موجودگی کا اشارہ ملا تھا، حکام نے کہا کہ جون میں انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے قبائلی ضلع میں داعش کے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت دیگر رہنماؤں نے باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام کے ورکرز کنونشن میں دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔