ڈھاکا میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ہزاروں حامیوں کا حکومت کے خلاف احتجاج
بنگلہ دیش کی مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ہزاروں حامیوں نے دارالحکومت ڈھاکا میں ریلی نکالی اور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے اور نگران حکومت کے زیر انتظام عام انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں حزب اختلاف کی خالدہ ضیاء کو جیل میں ڈالے جانے کے بعد سے مرکزی اپوزیشن جماعت انتشار کا شکار ہے اور اس نے حالیہ مہینوں میں بڑی احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں، جس میں بڑھتی مہنگائی کے خلاف ہزاروں مظاہرین نے احتجاج کیا۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی وزیر اعظم حسینہ سے مستعف ہو کر جنوری 2024 میں ہونے والے اگلے انتخابات ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت منعقد کرنے کا ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے لیکن حخومت نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینئر رہنما عبدالمعین خان نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی کا ایک نکاتی مطالبہ بنگلہ دیش میں جمہوریت کی بحالی ہے، یہ مطالبہ صرف ایک آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جو موجودہ حکومت میں ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے اور ایک عبوری حکومت کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا راستہ بنانا چاہیے، صرف اسی کے ذریعے ہم بنگلہ دیش میں عوامی حکومت کو بحال کر سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے حامی پولیس پر رکاوٹوں حائل کرنے کے الزامات عائد کیے لیکن اس کے باوجود ملک کے مختلف حصوں سے ہزاروں افراد ریلی میں شریک ہوئے۔
ساحلی شہر چٹاگانگ سے ریلی میں شامل ہونے والے بی این پی کے حامی ثنااللہ نے کہا کہ ہم یہاں لوگوں کے ووٹ کا حق لینے کے لیے آئے ہیں۔
بی این پی کے رہنما مرزا عباس نے کہا کہ حکومت نے ریلی کو روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکی، ہمارے رہنماؤں اور کارکنوں نے تمام رکاوٹوں کو عبور کر لیا اور ہم یہاں ریلی کو کامیاب بنانے کے لیے آئے۔
مرزا عباس نے مزید کہا کہ ریلی میں شریک ان کے کم از کم ایک ہزار حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس نے صرف اتنا کہا کہ کچھ لوگوں کو اس لیے گرفتار کیا گیا کہ وہ درست شناختی کارڈ فراہم نہیں کر سکے۔
اپوزیشن اور انسانی حقوق گروپوں نے حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
رواں سال مئی میں امریکا نے کہا تھا کہ وہ ان بنگلہ دیشیوں کے لیے ویزا محدود کرنے کی نئی پالیسی اپنا رہا ہے جو اندرون ملک جمہوری انتخابی عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں 2014 اور 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹوں میں دھاندلی کے الزامات اور سیاسی حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کے بعد عالمی سطح پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے البتہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
2009 میں اقتدار میں آنے والی شیخ حسینہ واجد پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادی صحافت کو نقصان پہنچانے اور اختلاف رائے کو دبانے کے ساتھ ساتھ اہم اپوزیشن رہنماؤں سمیت ناقدین کو جیل بھیجنے کا الزام لگتا رہا ہے۔
حسینہ کی سخت حریف اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کو کووڈ-19 کا وبائی مرض بیماری کے پھیلنے کے بعد سے ایک خصوصی انتظام کے تحت ڈھاکا میں گھر پر رہنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن انہیں کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شرکت سے روک دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعت کی ریلی کا مقابلہ کرنے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ریلی میں شریک حکمران جماعت کے ایک بوڑھے حامی نے نعرہ لگایا کہ شیخ حسینہ واجد یہیں ہیں، شیخ حسینہ ہمیشہ رہیں گی۔