پی ٹی آئی کی خواتین ارکان پارلیمنٹ کو ’کچرا‘ کہنے پر خواجہ آصف تنقید کی زد میں آگئے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خواتین اراکین اسمبلی کے بارے میں جنسی تعصب اور تضحیک آمیز ریمارکس پر پی ٹی آئی کی خواتین اراکین اسمبلی نے شدید احتجاج کیا۔
خواجہ آصف نے یہ ریمارکس پارلیمنٹ میں قانون سازی کے طریقہ کار اور بلوں کو ’بلڈوز‘ کرنے پر اراکین اسمبلی بشمول پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر علی ظفر کی تنقید کے جواب میں دیے۔
اپنے خطاب میں خواجہ آصف نے سابق وزیراعظم عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کے دورِ حکومت میں قانون سازی کو بلڈوز کرنے اور قومی اسمبلی کی تحلیل یاد کروائی۔
تقریر کے دوران احتجاج کیے جانے پر خواجہ آصف نے کہا کہ اخلاق باختہ عورتیں عفت و عصمت پر لیکچر نہ دیں، پہلے اپنا دامن دیکھیں پھر ہمیں پاک دامنی کا طعنہ دیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اگر میں کچھ اور کہوں گا تو یہ ’عورت کارڈ‘ استعمال کریں گے، یہ کہیں گے کہ ہم عورتیں ہیں اور یہ ہمارے بارے میں کیسے بات کر رہا ہے، خواجہ آصف کی اس بات پر ایوان میں قہقہے گونج اٹھے۔
وزیر دفاع نے خواتین اراکین پارلیمنٹ کو کھنڈرات اور عمران خان کی باقیات قرار دیتے ہوئے اُن نشتسوں کی جانب اشارہ کیا جہاں پی ٹی آئی کی خواتین اراکین اسمبلی سینیٹر زرقا سہروردی تیمور، ثانیہ نشتر، فلک ناز چترالی اور فوزیہ ارشد براجمان تھیں۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ یہ چیئرمین پی ٹی آئی کا چھوڑا ہوا کچرا ہے جسے صاف کرنا ہوگا، اُن کے اِس بیان پر پی ٹی آئی کی خواتین اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا جو اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑی ہوئیں اور خواجہ آصف سے اپنے الفاظ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
ان کے شدید احتجاج کے دوران وزیر دفاع نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا عمران خان کو آج عدالتوں میں پیش ہونے کی ہمت نہیں ہے اور یہ ان کا دفاع کررہی ہیں، جس شخص کا دفاع خواتین کریں گی اس کی بہادری کیا ہوگی؟
خواجہ آصف کے بعد ایوان سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر زرقا سہروردی تیمور نے کہا کہ انسانوں کے درمیان فرق صرف اخلاقی کردار اور برتاؤ کا ہوتا ہے، میں ایک اتنی بڑی سیاسی شخصیت کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان پر پریشان ہوں، میں نے اپنے گھر میں ایسے الفاظ کبھی نہیں سنے۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ ساتھی رکن پارلیمنٹ نے ’کچرا‘ اور ’بھونکنے‘ جیسے الفاظ استعمال کیے، جب ہم کسی دوسرے کی عزت نہیں کرتے تو دراصل ہم اپنے آپ کو قابل احترام نہیں سمجھتے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر نے ایوان میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کی ہدایت دی اور خواجہ آصف کی تقریر سے لفظ ’کچرا‘ حذف کروا دیا۔
اجلاس کے دوران پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ کے علاوہ کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی جانب سے خواجہ آصف کے ریمارکس کی سخت مذمت نہیں کی گئی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی شیری رحمٰن نے بھی خواجہ آصف کے اس بیان کی مذمت نہیں کی جوکہ اُن سے صرف ایک قطار پیچھے بیٹھی تھیں اور اس سب کے دوران زیادہ تر وقت وزیر تجارت نوید قمر کے ساتھ باتوں میں مصروف رہیں۔
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے رہنما پی ٹی آئی فرخ حبیب نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ’ایسا اخلاق سے گرا ہوا شخص ہے جو متعدد بار اسمبلی کے فلور پر خواتین کے بارے اخلاقیات سے گری ہوئی بدزبانی کرچکا ہے، پہلے بھی اس نے شیری مزاری سے متعلق گھٹیا گفتگو اس اسمبلی کے فلور پر کی تھی، یہ وہی ہی شخص جو امریکا میں ایک فورم پر مغربی لباس پہن کر خود کو لبرل کہہ رہا تھا اور اندر سے اس تنگ نظری اور غلیظ سوچ کا اظہار بار بار خواتین پر حملہ کرکے کرتا ہے، ایسی منافقت پر کوئی شرم ہے کوئی حیا ہے؟
انہوں نے سوال کیا کہ حیرانگی اس بات پر ہوئی پیچھے بیٹھی شیری رحمٰن ہلکا ہلکا مسکرانے کی بجائے اور جماعتی وابستگی سے ہٹ کر دیگر خواتین اراکین پارلیمنٹ نے اس شخص کے بیان پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟
دریں اثنا پی ٹی آئی نے خواجہ آصف کے ان ریمارکس کو انتہائی شرمناک قرار دیا، پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر دفاع کے یہ ریمارکس واضح طور پر خواتین کو سیاست سے دور کرنے کی کوشش ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے بھی وزیر دفاع کے متنازع بیان پر کڑی تنقید کی، انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ان موصوف کی ساری مردانگی خواتین کے بارے میں اخلاق سے گری ہوئی باتوں پر مشتمل ہے، یہ پہلے بھی ایسا کر چکے ہیں۔
’ڈان نیوز‘ کی اینکر ابصا کومل نے بھی نشاندہی کی کہ خواجہ آصف کی جانب سے خواتین کے لیے توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، دہائیوں کا سیاسی تجربہ رکھنے والے شخص کی جانب سے ایسی زبان سن کر پی ٹی آئی سینیٹر زرقا تیمور نے بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2016 میں خواجہ آصف قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کی اس وقت کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کے خلاف تضحیک آمیز ریمارکس استعامل کرنے پر اپوزیشن تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔
شیریں مزاری اور کچھ دیگر اراکین اسمبلی کی جانب سے رمضان میں لوڈشیڈنگ پر خواجہ آصف کی تقریر کے دوران احتجاج کیا جارہا تھا جس کے ردعمل میں شیریں مزاری کو خاص طور پر نشانہ بنا کر توہین آمیز زبان کا استعمال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ ’کوئی اس ٹریکٹر ٹرالی کو چپ کرائے‘۔
2017 میں خواجہ آصف نے پیپلز پارٹی چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں شامل ہونے والی فردوس عاشق اعوان کو ’نیا حاصل کردہ ڈمپر‘ قرار دیا تھا۔