• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:33pm Maghrib 5:10pm
  • ISB: Asr 3:34pm Maghrib 5:12pm

مخالفت کے باوجود حکومت کا بجلی کی قیمتوں میں اضافہ واپس لینے سے انکار

شائع July 25, 2023
نیپرا کی سماعت کے دوران احتجاج کرنے والے صنعتی اداروں میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے تھا—فائل/فوٹو: اے ایف پی
نیپرا کی سماعت کے دوران احتجاج کرنے والے صنعتی اداروں میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے تھا—فائل/فوٹو: اے ایف پی

صارفین کی شدید مخالفت کے باوجود پاور ڈویژن اور پاور ریگولیٹر ٹس سے مس نہ ہوئے اور عالمی مالیاتی فنڈ سے کیے گئے وعدے کے مطابق یکم جولائی 2023 سے قومی سطح پر بجلی کے نرخوں میں 26 فیصد (7 روپے 50 فی یونٹ) تک اضافہ کرنے سے باز نہیں آئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے چیئرمین توصیف ایچ فاروقی کی زیر صدارت عوامی سماعت کے دوران تجارتی اور صنعتی اداروں نے قیمتوں میں اتنے بڑے اضافے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ صنعت پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، اس اضافی بوجھ سے کاروبار بند ہو جائیں گے، مصنوعات ناقابل مسابقت ہونے کی وجہ سے برآمدی منڈی کا صفایا ہو جائے گا اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔

نیپرا سماعت کے دوران احتجاج کرنے والے صنعتی اداروں میں سے زیادہ تر کا تعلق کراچی سے تھا۔

سخت تشویش اور پریشانی کا شکار صارفین کے نمائندوں نے اضافے کے خلاف تلخ الفاظ میں اپنے غصے کا اظہار کیا جب کہ ان کی جانب سے استعمال کی گئی زبان پر سربراہ نیپرا کو متعدد بار مداخلت کرنا پڑی اور انہوں نے جذبات پیشہ ورانہ اور مناسب الفاظ میں پیش کرنے کی بار بار درخواستیں کیں۔

دوران سماعت حکومتی ٹیم نے بتایا کہ اوسط ٹیرف ریگولیٹر کی جانب سے بجلی کی لاگت کے مختلف عوامل کی بنیاد پر طے کیا گیا تھا، ان عوامل میں کرنسی کی قدر میں کمی، کیپیسٹی پیمنٹ اور مہنگائی سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کم بجلی استعمال کرنے والے رہائشی صارفین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے صرف سبسڈی اور کراس سبسڈی کا عنصر متعارف کرایا ہے۔

عوامی سماعت کو بتایا گیا کہ نیپرا کی جانب سے طے شدہ اوسط قومی ٹیرف کی بلند ترین سطح پر حکومت نے رہائشی صارفین میں سے 63 فیصد صارفین کو نہ صرف 158 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کر کے کسی بھی اضافے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے بلکہ زیادہ ادائیگی کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے لیے نرخوں میں اضافہ کر کے دوسرے دیگر صارفین کے لیے کراس سبسڈی بھی دی ہے۔

پاور ڈویژن کے نمائندوں نے دعویٰ کیا کہ 98 فیصد گھریلو صارفین مختلف سبسڈی سے استفادہ کریں گے۔

ڈسکوز کے لیے 158 ارب روپے کی سبسڈی کے علاوہ سماعت کے دوران بتایا گیا کہ کے الیکٹرک کو 298 ارب روپے کی سبسڈی بھی دی جائے گی تاکہ ملک بھر میں یکساں ٹیرف کے نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے۔

پاور ڈویژن نے بتایا کہ حکومت نے تین برسوں کے دوران کے الیکٹرک کو 736 ارب روپے کی سبسڈی فراہم کی، رواں برس پاور سیکٹر کی مجموعی سبسڈی کا بجٹ 976 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

توصیف فاروقی نے ریمارکس دیے کہ ریگولیٹر نے قومی یکساں ٹیرف میں اوسطاً 4 روپے 96 پیسے فی یونٹ کا اضافہ کیا تھا لیکن حکومت نے ماہانہ 400 یونٹس سے زیادہ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین سمیت تجارتی، صنعتی برآمدی شعبے سمیت دیگر تمام کیٹیگریز کے لیے اس شرح کو بڑھا کر 7 روپے 50 پیسے فی یونٹ کر دیا۔

اس طرح اضافے کے بعد سرچارجز اور ٹیکس ملا کر کچھ کیٹیگریز کے لیے بجلی کی قیمت 56 روپے فی یونٹ سے زیادہ ہو جائے گی اور یہ قیمت سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، فیول ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ 60 روپے فی یونٹ سے تجاوز کر جائے گی۔

واضح کیا گیا کہ ’پروٹیکٹڈ کیٹیگریز‘ جو ماہانہ 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرتے ہیں، ان کے لیے نرخوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی جب کہ ’انپروٹیکٹڈ‘ صارفین کے لیے بجلی کے نرخ 21 سے 22 فیصد تک بڑھیں گے۔

100 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 3 روپے فی یونٹ اضافےکے بعد فی یونٹ قیمت 16.48 روپے جب کہ ایک سو ایک سے 200 یونٹ استعمال کرنے والی صارفین کے لیے 4 روپے فی یونٹ (21 فیصد) اضافے کے بعد فی یونٹ قیمت 22 روپے 95 پیسے ہو جائے گی۔

اسی طرح 201سے 300 یونٹ تک فی مہینہ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے فی یونٹ ریٹ 27روپے 14 پیسے ہو جائے گا جب کہ 301 سے 400 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کے لیے فی یونٹ میں 6 روپے 50 پیسے کا اضافہ ہوگا، اس کے علاوہ 401 یونٹس سے اوپر کے رہائشی، کمرشل، صنعتی اور دیگر صارفین کے لیے ریٹ میں 7روپے50 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوگا۔

ریگولیٹر کی جانب سے نئے نرخ یکم جولائی سے لاگو ہوں گے، اس اضافے سے سال کے دوران 476 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوگا، نئے نرخوں کا اطلاق کے الیکٹرک کے صارفین پر بھی ہوگا۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، جماعت اسلامی کے رہنما حافظ نعیم الرحمن سمیت سماعت میں شامل دیگر صارفین نے اس اضافے کی سخت مخالفت کی۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024