اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کا اتفاق ہوا تو اسحٰق ڈار کو نگران وزیراعظم بنایا جائے گا، احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کا اتفاق ہوجاتا ہے تو ان کو نگران وزیراعظم بنایا جائے گا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ نگران وزیراعظم کے لیے سب کا متفق ہونا لازمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی شخص نگران وزیراعظم ہوگا اس کے لیے ضروری ہے کہ حکمران اتحاد میں بھی اتفاق ہو اور پھر اپوزیشن لیڈر اس کے ساتھ اتفاق کریں، اس لیے اس وقت قیاس آرائیاں کرنا قبل از ہوگا۔
احسن اقبال نے کہا کہ اس عمل میں ضروری چیز یہ ہے کہ جو بھی شخص نگران وزیراعظم کا امیدوار ہوگا، اس پر اتفاق رائے ہو، جب تک اتفاق رائے منظرعام پر نہیں آتا تو اس وقت تک کسی کا نام لینا مناسب نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اسحٰق ڈار پر تمام جماعتیں اور اپوزیشن اتفاق کرتی ہے تو وہ بھی نگران وزیراعظم ہو سکتے ہیں، کوئی اور بھی ہو سکتا ہے، میں نہ کسی کو شامل کر رہا ہوں نہ ہی کسی نکال رہا ہوں، جس پر بھی سب کا اتفاق رائے ہوگا اس نام پر اتفاق ہوجائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) میں اس معاملے پر کوئی حتمی بات نہیں ہوئی، میرے سامنے اس وقت تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، میں اس پر قبل از وقت قیاس آرائی نہیں کروں گا، جس شخص کا چناؤ کیا جائے گا وہ آئینی تقاضوں کے مطابق کیا جائے گا۔
الیکشن ایکٹ کے سیکشن 230 میں ترمیم ہونی چاہیے تاکہ قوم کے تین ماہ ضائع نہ ہوں، اسحٰق ڈار
قبل ازیں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 میں ترمیم ہونی چاہیے تاکہ قوم کے تین ماہ ضائع نہ ہوں۔
ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہ زیب‘ میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے جب میزبان نے سوال پوچھا کہ کیا الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 میں ترمیم ہونی چاہیے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میرے مطابق، بالکل، یہ قوم سے چھپانے کی بات نہیں ہے، قوم کو پتا چل جائے گا اور اس میں بالکل ترمیم ہونی چاہیے تاکہ قوم کے تین ماہ ضائع نہ ہوں کیونکہ تین گھنٹے بھی ضائع نہیں کیے جا سکتے تو تین ماہ روزانہ کی بنیاد پر کام کیوں نہ کریں۔
پیر کو نشر ہونے والے پروگرام میں میزبان کی طرف سے نگران وزیراعظم بنائے جانے کی خبروں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ میں نے بھی آج یہ خبریں دیکھی ہیں لیکن بطور مسلمان میرا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی عہدے کے پیچھے آپ کو خود نہیں بھاگنا چاہیے یا اس کے لیے لابنگ نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ میں جو کچھ کر سکا ہوں کیا ہے، ماضی بھی میں کیا ہے، پانچویں بار اللہ نے یہ ذمہ داری دی ہے جو کہ میں نبھا رہا ہوں اور میں سینیٹ میں قائد ایوان بھی ہوں اور وہ ذمہ داری بھی نبھا رہا ہوں، اس لیے اس پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا اور اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے۔
جب ان سے میزبان نے سوال ہوچھا کہ سینیئر سیاستدان، ماہر معیشت اور ٹینکوریٹ کو نگران وزیراعظم ہونا چاہیے تو کیا آپ پر اتفاق ہو سکتا ہے، اس پر اسحٰق ڈار نے کہا کہ اللہ کو پتا ہے لیکن جو بھی اور جس کو ذمہ داری ملے، میں سمجھتا ہوں کہ قوم کے تین ماہ صرف ڈے ٹو ڈے کے لیے مناسب نہیں ہیں، ماضی کا ہمارا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا۔
نگران وزیراعظم کی طرف سے اہم فیصلے کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ بالکل ہونے چاہئیں، کم از کم چیزیں جاری رہنی چاہئیں۔
جب ان سے اس سوال کیا گیا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے سے آپ کو نگران وزیراعظم بنایا جائے تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ پر گزشتہ 30 برس سے جو بھی ذمہ داری عائد کی گئی ہے میں نے اپنی صلاحیت کے مطابق ان کو نبھانے کی کوشش کی ہے، اس میں کہیں مشکل آئی ہوگی لیکن میں نے کبھی بھی فیصلے میں ذرا بھی جھول نہیں آنے دیا، کوئی مجھ پر کبھی سیاسی دباؤ نہیں ڈال سکا یا میرٹ کے خلاف کچھ نہیں کیا۔
اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ لیکن اللہ نے جس سے کام لینا ہوتا ہے وہ لیں گے، مزید کہا کہ ہماری بھی معاونت ہوگی، میں سینیٹر ہوں، قائد ایوان ہوں، جہاں بھی بیٹھا ہوں گا ملک کے لیے کام کروں گا۔
واضح رہے کہ 13 جولائی کو انتخابی اصلاحات کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، سینیٹر تاج حیدر سمیت دہگر رہنماؤں نے شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر آن لائن شریک ہوئے تھے۔
ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں انتخابات کے بروقت انعقاد، شفاف انعقاد کے حوالے سے اصلاحات، دھاندلی روکنے کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ سمندر پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت مختلف امور پر گفتگو کی گئی تھی۔
انتخابی اصلاحات کے تیسرے ان کیمرہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی کے معاملے کو ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی نے 99 فیصد کام مکمل کر لیا ہے اور جن نکات پر اتفاق نہیں تھا ان پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک دو معاملات پر پی ٹی آئی کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا لیکن یہ معاملات اتنے حساس نہیں کہ انہیں حل نہ کیا جا سکے، پی ٹی آئی کے تحفظات کو مل بیٹھ کر حل کر لیں گے۔