زمانہ طالب علمی میں نورجہاں کی تصویر والا رسالہ چھپا کر لایا، رفیع اور لتا کو سنتا تھا، طارق جمیل
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے پہلی بار اپنے بچپن کی یادوں سے متعلق کھل کر گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ زمانہ طالب علمی میں نہ صرف فلمی رسالے پڑھتے تھے بلکہ وہ پورا دن گانے سننے کے علاوہ فلمیں بھی دیکھا کرتے تھے۔
مولانا طارق جمیل نے چند دن قبل حافظ احمد کے پوڈ کاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادوں سمیت تبلیغ میں جانے اور پھر عالم دین بننے کی کہانی بھی سنائی۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں کالج کے ایک دوست زبردستی پہلی بار تین دن کے لیے تبلیغ لے گئے تھے، جہاں انہیں مزہ آیا اور وہ دوبارہ چالیس دن کے لیے گئے اور پھر انہیں دوست چار مہینوں کے لیے لے گئے۔
طارق جمیل کے مطابق ان دنوں میں پاکستانی مزاحیہ اداکار رنگیلا کا کیریئر عروج پر تھا اور انہوں نے فلمیں بنانا بھی شروع کی تھیں اور ان ہی دنوں میں رنگیلا کی بنائی گئی فلم ’دو رنگیلا‘ ریلیز ہوئی، جسے دیکھنے کے لیے وہ بے تاب ہوگئے اور تبلیغ سے بھاگنے کا بھی سوچا۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے دوست کو جھوٹ بولا کہ ان کے پاس کپڑے بھی نہیں اور پیسے بھی ختم ہوگئے، اس لیے انہیں اجازت دی جائے تو وہ گھر جائیں۔
ان کے مطابق انہوں نے تبلیغ سے جانے کے لیے اس لیے جھوٹ بولا کیوں کہ انہیں رنگیلا کی فلم ’دو رنگیلا‘ بھی دیکھنی تھی لیکن دوست نے انہیں اجازت نہیں دی، انہیں اپنے کپڑے دینے سمیت پیسے بھی دیے اور پھر یوں وہ ہمیشہ کے لیے تبلیغ کے ہوکر رہ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ جب وہ مولوی بن گئے تو رشتے داروں نے انہیں رشتہ دینے سے انکار کیا، پھر ان کی شادی فیصل آباد سے کروائی گئی۔
مولانا طارق جمیل کے مطابق شادی کے بعد بھی انہوں نے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا، اس لیے شادی کے بعد وہ اہلیہ کی سہولت کے لیے فیصل آباد منتقل ہوگئے اور پھر وہیں کے ہی رہ گئے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بولی وڈ ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ عامر خان سے ملاقات کا احوال بھی بتایا اور کہا کہ شروع میں انہوں نے بھارتی اداکار سے فلموں کی باتیں کیں، جس پر اداکار حیران رہ گئے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے عامر خان کو پرانے بولی وڈ سے متعلق وہ باتیں بتائیں جو وہ خود بھی نہیں جانتے تھے، جس کے بعد اداکار پرسکون ہوگئے اور ان سے ملاقات کا دورانیہ بڑھا دیا۔
مولانا طارق جمیل کے مطابق دورانیہ بڑھنے کے بعد انہوں نے عامر خان کو حج کرنے کا کہا اور انہیں حج کی فضیلت بتائی۔
ان کے مطابق ان کے ہمراہ پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی بھی تھے۔
مولانا طارق جمیل نے بچپن کے واقعات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہیں درسی کتاب پڑھنے کا شوق نہیں تھا، وہ ہر وقت فلمی رسالے پڑھا کرتے تھے جب کہ ٹیوشن کے وقت بھی وہ ہینڈز فری لگا کر چوری چوری ریڈیو پر گانے سنتے رہتے تھے۔
ان کے مطابق زمانہ طالب علمی میں کالج میں ہونے والے پروگرام میں وہ ’گھر آیا پردیسی‘ گانا سنایا کرتے تھے جو ’آوارہ‘ فلم تھا اور فلم کو 12 لاکھ روپے کے بجٹ میں بنایا گیا، جس میں سے 8 لاکھ روپے گانے پر خرچ کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی جب وہ نعت خوانوں کی گانوں کی دھن پر بنائی گئی نعتیں سنتے ہیں تو انہیں وہ تمام گانے یاد آجاتے ہیں، جن پر وہ نعتیں بنائی گئی ہوتی ہیں۔
مولانا طارق جمیل کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ تعلیم کے سلسلے میں ہاسٹل میں رہتے تھے تب وہ ہفتہ وار میگزین ’مصور‘ چھپاکر لائے تھے اور اس کے سر ورق پر گلوکارہ نور جہاں کی تصویر تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ہاسٹل میں سختی ہوتی تھی، اس لیے وہ رسالے کو چھپا کر لائے اور کلاس فیلوز کے ساتھ پڑھائی کے وقت انہوں نے رسالہ نکالا اور سب کو کہا جنہوں نے نورجہاں کی تصویر والا رسالہ پڑھنا ہے، وہ ان کے پاس آجائیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ زمانہ طالب علمی کے دوران وہ نورجہاں کے علاوہ بھارتی گلوکار محمد رفیع اور لتا منگیشکر کو سنتے رہتے تھے اور بعد ازاں کشور کمار بھی بہت مقبول ہوا اور انہیں بھی انہوں نے سنا۔