’کاش انیتا نے ماں بننے کے حکم پر سر نہ جھکایا ہوتا‘
وہ 8 ماہ تک ہر ہفتے ہمارا ہاتھ پکڑ کر چلی۔۔۔ اور اب جب سب کچھ ختم ہونے کو تھا تو یکایک وہ ہاتھ چھڑا کر چل دی۔۔۔ دور۔۔۔ کسی اور ہی دیس میں۔
پہلی بار جب وہ ہمیں ملنے آئی تو وہ ہمیں اپنی بیٹی جیسی ہی لگی، وہی عمر، وہی بھول پن۔
اس کی فائل دیکھ کر ہم چونک گئے، ہمیں یاد ہے کہ ہم نے اس کے ماں باپ کو خوب ڈانٹا (عام طور پر ہم ایسا نہیں کرتے)۔ ماں باپ دونوں سر نہوڑائے بیٹھے رہے۔
بس والدین نے صرف اتنا کہا، ’ہم نے بھی منع کیا تھا مگر اس کا شوہر اور سسرال۔۔۔‘
’بھاڑ میں جائیں سسرال والے‘، ہم بھڑک اُٹھے۔
’بیٹی آپ کی۔۔۔ زندگی بیٹی کی۔۔۔ سسرال اور شوہر کو کیا درد؟ ہم مزید چراغ پا ہوئے۔
’ڈاکٹر، تم تو جانتی ہی ہو‘۔
’ہاں میں سب جانتی ہوں پدرسری نظام کی بندشیں۔۔۔‘
’سنو بیٹا، یہ بچہ گرادو ابھی حمل کا آغاز ہے۔ تمہاری بیماری بہت خطرناک ہے‘۔
چڑیا جیسی بچی نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔
’بلاؤ اپنے شوہر کو میں بات کروں گی اس سے‘۔
’نہیں ڈاکٹر، میرا شوہر نہیں مانتا‘۔
’کیا تم نے اسے شادی سے پہلے بتایا تھا؟‘
’جی سب کچھ اور اس نے اس وعدے پر شادی کی تھی کہ بچہ پیدا نہیں کریں گے‘۔
’پھر اب کیا ہوا؟‘
بس۔۔۔ بہن بھائیوں اور ماں باپ کا پریشر’۔
’کس کے گھر والے؟‘
’اس کے شوہر کے جی۔۔۔ انہیں ہر حال میں بچہ چاہیے‘۔
’اف! اب آپ انیتا کو سمجھائیے کہ وہ بچہ ضائع کروا دے‘، ہم نے کہا۔
’بہت سمجھایا۔۔۔‘ ماں نے نم آنکھوں سے کہا۔
انیتا انڈیا سے تعلق رکھنے والی 29، 30 برس کی لڑکی جو ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھی جس میں آپ کا جسم اپنے ہی اعضا کے خلاف ایسے کیمیکلز بناتا ہے جس سے اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں مثلاً گردے، دل، جوڑ، ہڈیاں۔
10 برس پہلے انیتا کو SLE (Systemic Lupus Erythmatosis) کی تشخیص ہوئی تو وہ بے تحاشا دوائیاں لینے پر مجبور ہوئی جو جسم میں ان خطرناک کیمیکلز کو قابو میں رکھنے کے لیے ضروری تھیں۔ ادویات لینے کے باوجود 3 برس سے Lupus Nephritis یعنی گردوں کی اہلیت کمزور ہوچکی تھی۔ اسے جلد یا بہ دیر ڈائیلیسز کی ضرورت پڑنے والی تھی۔ اس کے گردے صرف 30 فیصد کام کررہے تھے۔ ہیمو گلوبن بہت کم تھا۔ جسم میں خون نہیں بن رہا تھا کیونکہ خون بنانے کے لیے ایک ضروری مادہ بھی گردوں سے نکلتا ہے۔
’زیادہ شوگر، ہائی بلڈ پریشر، امیونٹی خراب۔۔۔ کتنی دوائیں دوں؟ حمل گرا دو‘۔
لیکن وہ نہیں مانی۔ کچھ کہا بھی نہیں بس نم آنکھوں سے دیکھتی رہی۔
کیا کرتے؟ ہمارے بس میں ہوتا تو حمل ایک دن بھی آگے چلنے نہ دیتے۔
’سنو انیتا، ہر دو ہفتے کے بعد تمہیں اسپتال آنا ہے، ٹیسٹ کروانے ہیں اور جب بھی ضرورت پڑے گی، ہم تمہیں داخل کریں گے‘۔
’جی۔۔۔‘ اس نے سر جھکا لیا۔
ہر وزٹ پر وہ ہانپتی کانپتی آتی۔ کبھی بلڈ پریشر آسمان کو چھو رہا ہوتا اور کبھی شوگر۔۔۔ ہر بار گردوں میں پیشاب بنانے اور جسم سے مضر مادے کھینچ کر باہر نکالنے کی صلاحیت کم ہوتی نظر آتی۔
ڈاکٹرز کی ایک ٹیم اس کا معائنہ کرتی۔ امینولوجسٹ، نیفرولوجسٹ، فزیشن، گائناکالوجسٹ۔
حمل کے 31ویں ہفتے میں جب گردوں کا ٹیسٹ ہوا تو پتا چلا کہ جسم سے یوریا اور کریٹینین کا اخراج نہیں ہو رہا۔ پیشاب بھی کم بن رہا ہے۔ تب ہم نے فیصلہ کیا کہ بس بہت ہوگیا، اب بچہ پیٹ سے نکل کر نرسری میں رہ سکتا ہے۔
ہم نے اپنے فیصلے سے انیتا اور ماں باپ کو آگاہ کیا۔ کچھ ہچکچاتے ہوئے انہیں اجازت دینی پڑی کیونکہ اب ہم رکنے والے نہیں تھے۔ آپریشن والے دن تھیٹر کی میز پر وہ چپ چاپ لیٹی تھی۔ ہم نے ہاتھ پکڑ کر اسے تسلی دی۔ وہ چپ چاپ ہمیں دیکھتی رہی، کچھ بولی نہیں۔ ہم نے آپریشن کیا، وزن کے حساب سے تقریباً ایک کلو کا بچہ پیدا ہوا۔ بچہ نرسری کے حوالے کیا اور آپریشن ختم کرکے باہر آئے جہاں اس کے والدین انتظار کررہے تھے۔ انہیں بتایا کہ ماں اور بچہ دونوں ٹھیک ہیں۔ انیتا کو وارڈ میں شفٹ کردیا گیا۔
لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
اگلے دن گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور جسم میں یوریا اور کریٹینین بڑھنے لگا۔ نیفرولوجسٹ کو دکھایا گیا اور مختلف ادویات شروع کروائی گئیں۔ جب اگلے دن بھی پیشاب نہیں آیا تو ڈائیلیسز کا فیصلہ ہوا۔ ڈائیلیسز میں یوریا اور کریٹینین مشین کے ذریعے جسم سے نکالا جاتا ہے۔ جسم ایک ایسی مشین ہے جس کی صفائی پیشاب، پاخانے اور پسینے کے ذریعے نہ ہو تو وہ کام نہیں کرسکتا۔
انیتا کا ڈائیلیسز تو ہورہا تھا لیکن اس کی حالت اچھی نہیں تھی۔ ایک دن ہم نے اسے والدین کے ساتھ وہیل چیئر پر نرسری جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنا بچہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھی لیکن اس کا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔ بات کرنا مشکل تھی۔ ہم نے اسے تسلی دی۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا کہ کیا اب تمام عمر ڈائیلیسز کروانا پڑے گا؟ ’ارے نہیں تم گردہ لے کر ٹرانسپلانٹ کروا لینا،‘ ہم نے جواب دیا۔
’تمہیں میں ایک نہیں، اپنے دونوں گردے دے دوں گا‘، ساتھ کھڑے ابا نے کہا۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ ہلکا سا مسکرائی۔
عید کا دن آگیا، انیتا بہت تکلیف میں تھی۔ ایک دن پہلے اس کا ڈائیلیسز ہوا تھا۔ سہ پہر اس نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے بلند آواز میں کہا۔۔۔ ’ابا!‘۔
باپ نے بھاگ کر دیکھا تو وہ بے سدھ پڑی تھی۔ نرسز نے نبض اور بلڈپریشر چیک کرنے کی کوشش کی مگر بے سود رہا۔ کارڈیک ٹیم آپہنچی، آدھے گھنٹے تک دل کو چلانے کی کوشش کی گئی، بجلی کے جھٹکے تک دیے گئے مگر انیتا جاچکی تھی۔
انیتا کا شوہر واپس جا چکا ہے جبکہ بچی ماں باپ کے پاس ہے۔ ابا کے پاس ہمارا نمبر ہے جس سے اکثر ہمیں میسج آتا ہے کہ ’کیا کروں ڈاکٹر، صبر نہیں آتا۔ انیتا کے بنا زندگی کیسے گزاروں؟‘
ہم بے اختیار آہ بھر کر سوچتے ہیں کہ کاش انیتا نے ماں بننے کے حکم کے سامنے سر نہ جھکایا ہوتا۔