منی پور واقعے پر مودی کی تقریر ان کی خاموشی سے زیادہ اذیت ناک
وزیر اعظم نریندر مودی کے اپنے طے کردہ معیار کو بھی مدنظر رکھا جائے تو ریاست منی پور میں جاری فسادات پر ان کی خاموشی حیران کن تھی۔
ریاست میں 80 دن سے خانہ جنگی جاری ہے، 150 سے زائد لوگ مر چکے ہیں، ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں تاہم ریاست کا دورہ کرنا تو دور، شاندار جوش خطابت کے لیے مشہور وزیر اعظم مودی نے جمعرات کی صبح تک معاملے پر ایک لفظ تک کہنے سے گریز کیا۔
پھر جمعرات کو پارلیمنٹ کے باہر ٹی وی کیمروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ منظر عام پر آنے والا منی پور واقعہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے شرمناک ہے۔
وزیراعظم جس واقعے کی بات کر رہے تھے، وہ منی پور میں میتی اور کوکی برادری کے درمیان شروع ہونے والے فسادات کے اگلے دن 4 مئی کو پیش آیا۔
کسی محفوظ مقام کی تلاش میں جنگلات میں راہ فرار اختیار کرنے والے کوکی قبیلے کے افراد کو مشتعل ہجوم نے گھیرے میں لے لیا۔ اس کے بعد اس ہجوم نے دو افراد کو قتل کردیا اور خوفزدہ قبیلے کی خواتین کو ہجوم نے برہنہ پریڈ کرانے کے بعد جنسی استحصال کا بھی نشانہ بنایا۔
یہ تمام تفصیلات اس پولیس رپورٹ میں درج ہیں جو دو ماہ قبل 18 مئی کو مقامی پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔
یہ بات ماننا انتہائی مشکل ہے کہ ریاست منی پور کی حکومتی جنسی استحصال کے اس بدترین واقعے سے لاعلم تھی، یہ تمام واقعات پولیس ریکارڈ کا حصہ تھے اور میڈیا رپورٹس میں بھی اس کا ذکر کیا گیا تھا، اگر وزیر اعظم اپنی پارٹی کے رہنما اور منی پور کے وزیراعلیٰ این بائرن سنگھ پر لگے الزامات کی جانچ کرانے کی زحمت گوارا کرتے، جو کسی آئینی رہنما کے بجائے میتی قبائل کے سرپرست کا کردار ادا کر رہے تھے، تو انہیں ریاست میں پرتشدد واقعات کی شدت کا اندازہ ہو جاتا۔
لیکن انہوں نے اس معاملے پر پہلی بار اس وقت لب کشائی کی، جب واقعے کی ویڈیو وائرل ہو گئی اور اس نے دنیا کے سامنے خواتین کی اس ذلت کا راز فاش کردیا جس کے بعد وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے اس واقعے پر بولنا مناسب سمجھا۔
لیکن اس تمام صورتحال کے باوجود بائرن سنگھ نے سفید جھوٹ سے کام لیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ منی پور پولیس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کی تھی لیکن دراصل انہوں نے دو ماہ تک واقعے پر کوئی کارروائی نہ کرتے ہوئے اس واقعے سے پہلو تہی برتنے والی پولیس کی نااہلی کو چھپانے کی کوشش کی۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ سے باز پرس کرنے کے بجائے نریندر مودی ان کے دفاع میں سامنے آگئے اور کہا کہ میں تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ امن و امان کا قیام یقینی بنائیں، بالخصوص ہماری ماؤں اور بہنوں کے تحفظ کے لیے سخت ترین اقدامات کریں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ واقعہ کہاں رونما ہوا ہے، پھر چاہے وہ راجستھان ہو، چھتیس گڑھ یا منی پور۔
راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے، ملک کے دیگر حصوں کی طرح ان دو ریاستوں سے بھی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات کی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں جو بھارتی جڑوں تک پیوست قبائلی نظام حکومت اور عورت سے نفرت کی دائمی علامت ہے، لیکن منی پور کی طرح کسی اور ریاست میں اس طرح فسادات نہیں ہوئے۔
اس سے قبل رواں ہفتے یہ خانہ جنگی اس وقت دیگر قبائل تک بھی پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا جب خراب ذہنی توازن کی حامل ناگا قبیلے کی ایک خاتون کو مبینہ طور پر قبائلی شناخت کی وجہ سے قتل کردیا گیا تھا۔
منی پور میں ہونے والے بدترین اور ہولناک واقعات کا دیگر ریاستوں میں ہونے واقعات سے موازنہ دراصل حقیقی صورتحال سے صرف نظر کرنا ہے۔
حتیٰ کہ جب نریندر مودی نے بات کی تو انہوں نے بھارتی وزیراعظم کے بجائے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کے طور پر گفتگو کی۔
یہ تجزیاتی مضمون بھارتی ویب سائٹ اسکرال ڈاٹ ان میں شائع ہوا اور اسے اجازت کے بعد یہاں شائع کیا گیا ہے۔