• KHI: Asr 4:41pm Maghrib 6:21pm
  • LHR: Asr 4:09pm Maghrib 5:50pm
  • ISB: Asr 4:13pm Maghrib 5:55pm
  • KHI: Asr 4:41pm Maghrib 6:21pm
  • LHR: Asr 4:09pm Maghrib 5:50pm
  • ISB: Asr 4:13pm Maghrib 5:55pm

سائفر معاملہ: تفتیش میں عدم تعاون پر عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے، وزیر داخلہ

شائع July 20, 2023
وزیر داخلہ نے وضاحت کی تھی کہ چونکہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے اس لیے اس کو عام کرنا غیر قانونی اور جرم ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
وزیر داخلہ نے وضاحت کی تھی کہ چونکہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے اس لیے اس کو عام کرنا غیر قانونی اور جرم ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ سائفر کی تحقیقات میں عدم تعاون کرنے کی صورت میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سابق وزیراعظم عمران خان کو گرفتار کر سکتی ہے۔

وفاقی وزیر رانا ثنااللہ کی طرف سے ایک ٹوئٹ میں یہ انتباہ سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ایک مبینہ اعتراف کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جنہوں نے اپنے سابق باس پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے امریکا میں پاکستان کے مشن سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور ’خفیہ‘ دستاویز کو استعمال کرتے ہوئے ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ‘ بنانے کی کوشش کی۔

رانا ثنااللہ نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اعترافی بیان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر تنقید کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس بھی کی تھی۔

وفاقی وزیر کے پرزور مطالبے کے فوراً بعد ایف آئی اے نے عمران خان کو نوٹس جاری کیا جس میں انہیں سائفر تحقیقات کے سلسلے میں 25 جولائی کو اسلام آباد میں بیورو کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا ہے۔

وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقات سے متعلق پیش رفت سے متعلق بتاتے ہوئے سابق وزیراعظم کو قانون کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے کی یاد دہانی بھی کرائی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ایف آئی اے نے چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کی تفتیش کے لیے طلب کیا ہے، اگر وہ انکوائری کے مرحلے کے دوران تعاون نہیں کرتے تو انہیں ممکنہ گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے بعد ایف آئی اے ان لوگوں کے بارے میں شواہد کی بنیاد پر سفارشات کرے گی جو اس میں ملوث ہیں اور جن کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے جانے چاہئیں۔

اعظم خان کی گھر واپسی

ایک حیران کن موڑ میں گزشتہ ماہ سے لاپتا اعظم خان، عمران خان کے خلاف بیان کے حوالے سے ان سے منسوب ایک خط سامنے آنے کے بعد دوبارہ منظر عام پر آئے ہیں اور ان کے وکیل نے ڈان کو بتایا کہ وہ اب گھر واپس آچکے ہیں۔

تاہم وکیل قاسم ودود نے ڈان کو بتایا کہ ان کے مؤکل ان سے منسوب بیان پر بات کرنے کی ’حالت میں نہیں ہیں‘۔

خیال رہے کہ اعظم خان 15 جون کو لاپتا ہو گئے تھے اور اسلام آباد پولیس نے ان کے اغوا کا مقدمہ درج کیا تھا۔ درخواست کے مطابق وہ شام کو دارالحکومت میں اپنے گھر سے نکلے لیکن پھر واپس نہیں آئے۔

اعظم خان کی بازیابی کی درخواست بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔

گزشتہ روز عدالت میں پیشی کے دوران صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اعظم خان ایک ایماندار آدمی ہیں، جب تک میں خود ان سے (سائفر کے بارے میں) نہیں سنوں گا، میں یقین نہیں کروں گا۔

’غیر تصدیق شدہ‘ بیان

اعظم خان سے منسوب ’غیر تصدیق شدہ بیان‘ میں کہا گیا ہے کہ 8 مارچ 2022 کو سیکرٹری خارجہ نے محمد اعظم خان سے رابطہ کیا اور انہیں سائفر کے حوالے سے آگاہ کیا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان نے اس سائفر کو دیکھنے کے بعد مبینہ طور پر جلدبازی کا مظاہرہ کیا اور اسے امریکا کی جانب سے کی گئی ’غلطی‘ کی بنیاد پر ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ‘ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

مبینہ اعتراف کے مطابق سائفر کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھی تھی اور اگلے دن (10 مارچ کو) جب ان سے وہ سائفر کاپی مانگی گئی تو عمران خان نے جواب دیا کہ وہ گم ہوگئی ہے۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے بار بار درخواست کے باوجود اصل سائفر واپس نہیں کیا۔

مبینہ اعترافی بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم کے سابق پرنسپل سیکریٹری نے اپنے باس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سائفر کے مواد کو عام نہ کریں کیونکہ یہ ایک ’خفیہ دستاویز‘ ہے۔

اعظم خان کا بیان مبینہ طور پر سی آر پی سی کی دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا۔

عام طور پر، ایک گواہ، ایک مشتعل شخص، یا ایک ملزم حلف کے تحت اور مجسٹریٹ کے سامنے ایسا بیان ریکارڈ کرتا ہے اور دفعہ 161 کے معاملے میں تفتیشی افسر گواہ کا بیان ریکارڈ کرتا ہے جس پر گواہ کے دستخط کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

تاہم ضلعی عدالت کے ذرائع نے بتایا کہ کسی بھی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا، اس بات کا امکان ہے کہ کسی ایگزیکٹو مجسٹریٹ نے بیان ریکارڈ کرایا ہو۔ تاہم مطلوبہ بیان ابھی تک ضلعی عدلیہ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

’من گھڑت داستان‘

اعظم خان کا بیان منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سائفر کے پیچھے بیانیہ کو ’من گھڑت‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے جرم کیا ہے اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اس جرم میں شریک ہیں۔

وزیر داخلہ نے وضاحت کی تھی کہ چونکہ سائفر ایک خفیہ دستاویز ہے اس لیے اس کو عام کرنا غیر قانونی اور جرم ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ مقدمہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف خفیہ دستاویزات چھپانے سے متعلق شروع کی گئی کارروائی سے ملتا جلتا ہے۔

وفاقی وزیر نے الزام عائد کیا کہ چاہے عمران نے اعظم خان کو بتایا کہ سائفر غائب ہو گیا ہے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ وہ اب بھی عمران خان کے پاس موجود ہے۔

اس سوال پر کہ کیا اس کیس کو بھی ’خصوصی عدالت‘ کے پاس بھیجا جائے گا، انہوں نے مثبت جواب دیا۔

عمران خان کا مزید چیزیں سامنے لانے کا عزم

وفاقی وزیر رانا ثنااللہ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے سائفر ایپی سوڈ کو ’مناسب بے نقاب‘ کرنے کا عزم کیا۔

ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کردہ بیان میں عمران خان نے دعوی کیا کہ وہ غیر سینسر شدہ تفصیلات کا اشتراک کریں گے کہ یہ کس طرح حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش سامنے آئی۔

عمران خان نے کہا کہ ’میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، یہ ٹی وی پر کسی بھی ڈرامے سے زیادہ دلکش ہو گا۔‘

کارٹون

کارٹون : 28 ستمبر 2024
کارٹون : 27 ستمبر 2024