• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

عمران خان نے سیاسی مقاصد کیلئے سائفر کا جھوٹا، بے بنیاد بیانیہ بنایا، سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان

شائع July 19, 2023
اعظم خان نے مبینہ بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
اعظم خان نے مبینہ بیان میں کہا کہ عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

سابق وزیر اعظم عمران خان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان نے میڈیا کو لیک ہونے والے اپنے مبینہ بیان میں اعتراف کیا ہے کہ عمران خان نے تمام تر حقائق کو چھپا کر سائفر کا جھوٹا اور بے بنیاد بیانیہ بنایا۔

کئی روز سے لاپتا اعظم خان کے میڈیا کو لیک ہونے والے مبینہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان نے کہا کہ سائفر کو غلط رنگ دے کر عوام کا بیانیہ بدل دوں گا۔‘

اعظم خان نے اپنے مبینہ بیان میں کہا کہ ’عمران خان نے سائفر مجھ سے 9 مارچ کو لے لیا اور بعد میں اسے کھو دیا، عمران خان نے سائفر ڈرامے کے ذریعے عوام میں ملکی سلامتی اداروں کے خلاف نفرت کا بیج بویا، منع کرنے کے باوجود ایک سیکرٹ مراسلے کو ذاتی مفاد کے لیے عوام میں لہرایا، سائفر ڈراما صرف اور صرف اپنی حکومت بچانے کے لیے رچایا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’8 مارچ 2022 کو سیکریٹری خارجہ نے مجھے سائفر کے بارے میں بتایا، اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر اعظم کو سائفر سے متعلق پہلے ہی بتا چکے تھے، عمران خان نے سائفر کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

مبینہ بیان میں اعظم خان نے کہا کہ ’عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ لیا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی، سائفر واپس مانگنے پر عمران خان نے اس کے گم ہونے کے متعلق بتایا۔‘

سابق پرنسپل سیکریٹری کے مطابق عمران خان نے ان کے سامنے سائفر کو عوام کے سامنے بیرونی سازش کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی بات کی، 28 مارچ کو بنی گالا میٹنگ اور 30 مارچ کو اسپیشل کابینہ اجلاس میں سائفر کا معاملہ زیربحث آیا، میٹنگز میں سیکریٹری خارجہ نے شرکا کو سائفر کے مندرجات کے متعلق بتایا۔

واضح رہے کہ سابق پرنسپل سیکریٹری اور اعلیٰ عہدے پر فائز بیوروکریٹ اعظم خان رواں سال 15 جون کی شام سے اسلام آباد سے لاپتا تھے، ان کے اہل خانہ نے ان کی گمشدگی کی تصدیق کی تھی۔

اسلام آباد پولیس نے مقدمہ اعظم خان کے بھتیجے محمد سعید خان کی شکایت پر درج کیا، شکایت کے مطابق اعظم خان (جو کہ گریڈ 22 کے پی اے ایس افسر ہیں) 15 جون کو شام ساڑھے 6 سے 7 بجے کے درمیان اسلام آباد میں اپنے گھر سے ایک ملاقات کے لیے نکلے اور اس کے بعد سے ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہے۔

اسلام آباد پولیس نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اعظم خان کی گمشدگی کے حوالے سے قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، کسی کے پاس اعظم خان کے بارے میں کوئی معلومات ہوں تو ہیلپ لائن 15 پر رابطہ کریں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے اعظم خان کے لاپتا ہونے کے بعد ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ میرے پرنسپل سیکریٹری کل شام سے لاپتا ہیں، ہر وہ شخص جس کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ مجھ سے قریب تھا، اسے ہدف بنایا جارہا ہے۔

جب تک اعظم خان کے منہ سے نہیں سنوں گا، نہیں مانوں گا، چیئرمین پی ٹی آئی

دوسری جانب چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کا اپنے سابق پرنسپل اعظم خان کے حوالے سے میڈیا پر چلنے والے بیان پر ردعمل سامنے آگیا۔

اسلام آباد میں عدالت پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اعظم خان ایماندار آدمی ہیں، جب تک ان کے منہ سے نہیں سنوں گا میں نہیں مانوں گا کہ انہوں نے یہ کہا ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے ردعمل دیتے ہوئے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ’اعظم خان کو پہلے اغوا کیا جاتا ہے پھر تمام قانون نافذ کرنے والے اور تحقیقاتی ادارے ان کی حراست سے انکار کرتے رہے’۔

فرخ حبیب نے کہا کہ ’آج اچانک خبر آتی ہے 164 کا بیان مجسٹریٹ کو ریکارڈ کروا دیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اغوا، تشدد، دباؤ میں لیے گے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اتنا ڈراما اور جھوٹ تو افسانوں اور فلموں میں بھی نہیں ہوتا جتنا بھونڈا اسکرپٹ یہاں چلایا جا رہا ہے، عمران خان کے خلاف کیونکہ آپ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا مقابلہ نہیں کرسکتے‘۔

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’سیکورٹی کا سب سے بڑا فورم نیشنل سکیورٹی کمیٹی سائفر کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت قرار دے کر اس پر ردعمل(امریکی سفیر کی طلبی اور ڈیمارش) بھی کر چکی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی بیانیے کے ختم ہونے کا فلوک چھڑوایا جا رہا ہے، وٹس ایپ گروپ ممبران کی جانب سے، نیشنل سیکورٹی کونسل کے اعلامیہ کا‘۔

شہباز گل نے ایک اور ٹوئٹ میں سوال کیا کہ ’ویسے دفعہ 164 کی اسٹیٹمنٹ مجسٹریٹ کے سامنے دی جاتی ہے، پولیس کہہ چکی ہے کہ اعظم خان ان کے پاس نہیں، کیا اعظم خان کو مجسٹریٹ نے اغوا کیا ہے‘۔

سائفر کے نام پر ڈھونگ رچانے والے کو جرم کی سزا ملنی چاہیے، وزیر داخلہ

ادھر وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اعظم خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ کون تھا جس نے اپنے ذاتی اور سیاسی گھٹیا مفادات کے لیے اس ملک اور اداروں کے خلاف سازش کی، پاکستان کے مفادات کے ساتھ کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں نے خود ہی اعتراف جرم کرلیا۔

اپنی پریس کانفرنس میں رانا ثنااللہ نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے سائفر کے نام پر ایک ڈرامہ اور ڈھونگ رچایا اور ایک ایسا جرم کیا جس کی سزا ہر قیمت پر ملنی چاہیے، اعظم خان کا بیان اس کی تصدیق بھی کرتا ہے جنہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ کب سیکریٹری وزارت خارجہ ان کے علم میں یہ بات لائے اور کون کون اس میں ملوث تھا، شاہ محمود قریشی بھی مکمل طور پر اس جرم میں شریک ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اعظم خان نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ عمران خان کو یہ کہا گیا کہ اس طرح نہ کریں یہ ایک خفیہ دستاویز ہے جس کو عام کرنا جرم ہے، لیکن انہوں نے اپنے سیاسی مفادات اور اس وقت کی اپوزیشن کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے جان بوجھ کر استعمال کیا۔

سائفر سے متعلق مبینہ ٹیلی فونک گفتگو

گزشتہ سال چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کے ساتھ مبینہ ٹیلی فونک گفتگو کی آڈیو لیک سامنے آئی تھی جس میں سابق وزیراعظم کو امریکی سائفر کے حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

آڈیو کی ابتدا میں مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’ہم نے بس صرف کھیلنا ہے اس کے اوپر، نام نہیں لینا امریکا کا، صرف کھیلنا ہے کہ یہ تاریخ پہلے سے تھی اس کے اوپر‘۔

گفتگو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے کہا کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو سائفر ہے میرا خیال ہے ایک میٹنگ اس پر کر لیتے ہیں، دیکھیں آپ کو یاد ہو تو سفیر نے آخر میں لکھا تھا ڈیمارش کریں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر ڈیمارش نہیں بھی دینا تو میں نے رات کو اس پر بہت سوچا کہ اس کو کس طرح کور کرنا ہے، ایک میٹنگ کرتے ہیں جس میں شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری خارجہ ہوں گے‘۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے آڈیو میں اعظم خان نے مزید کہا کہ ’شاہ محمود کو کہیں گے کہ وہ خط پڑھ کر سنائیں، وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اسے کاپی میں بدل دیں گے، وہ میں منٹس میں (تبدیل) کردوں گا کہ سیکریٹری خارجہ نے یہ چیز بنادی ہے۔‘

آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے مزید کہا کہ ’بس اس کا کام یہ ہوگا کہ اس کا تجزیہ ہوگا جو اپنی مرضی کے منٹس میں کردیں گے تاکہ دفتری ریکارڈ میں آجائے اور تجزیہ یہی ہوگا کہ سفارتی روایات کے خلاف دھمکی دی گئی، سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں۔‘

مبینہ طور پر اعظم خان بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ ’(میٹنگ کے) منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں نا وہ پھر (اپنی مرضی سے) ڈرافٹ کرلیں گے۔‘

اس پر عمران خان کو یہ پوچھتے سنا جاسکتا ہے کہ ’تو پھر کس کس کو بلائیں اس میں، شاہ محمود قریشی، آپ (اعظم خان) اور سہیل (سیکریٹری خارجہ)، ٹھیک ہے تو پھر کل ہی کرتے ہیں۔‘

آگے اعظم خان کو مزید کہتے سنا گیا کہ ’تاکہ چیزیں ریکارڈ پر آجائیں، آپ یہ دیکھیں یہ قونصلیٹ فار اسٹیٹ ہیں، وہ پڑھ کر سنائے گا تو میں کاپی کرلوں گا آرام سے تو آن ریکارڈ آجائے گا کہ یہ چیز ہوئی ہے۔‘

آڈیو میں مبینہ طور پر اعظم خان نے عمران خان سے مزید کہا کہ ’آپ سیکریٹری خارجہ کو بلائیں تاکہ بیوروکریٹک ریکارڈ پر چلا جائے۔‘

جس کے بعد عمران خان کی آواز میں کہا گیا کہ ’نہیں تو اسی نے تو لکھا ہے سفیر نے‘۔

جس پر اعظم خان کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’ہمارے پاس تو کاپی نہیں ہے نا۔۔۔۔۔ یہ کس طرح انہوں نے نکال دیا۔‘

اس پر مبینہ طور پر عمران خان نے کہا کہ ’یہ یہاں سے اٹھی ہے، اس نے اٹھائی ہے، لیکن خیر ہے تو غیر ملکی سازش۔‘

خیال رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے سائفر تنازع سے متعلق آڈیو لیک کی انکوائری میں سابق وزیراعظم عمران خان کو جاری کردہ طلبی نوٹس کے خلاف حکم امتناع واپس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو سائفر آڈیو لیکس پر چیئرمین پی ٹی آئی کےخلاف تحقیقات کی اجازت دے دی تھی۔

گزشتہ روز ہی امریکا نے پی ٹی آئی کے الزامات کے ردعمل میں پہلی بار ڈونلڈ لو کا اعلانیہ دفاع کیا تھا، سینیئر امریکی عہدیدار الزبتھ ہورسٹ نے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو کا اعلانیہ طور پر دفاع کیا ہے جن پر 15 ماہ قبل ایک ایسا سائفر پاکستان بھیجنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس نے ملک کی سیاست میں ہلچل برپا کردی تھی۔

ایک اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے نائب معاون وزیرِ خارجہ الزبتھ ہورسٹ نے ڈونلڈ لو کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف الزامات واضح طور پر جھوٹ پر مبنی ہیں۔

انہوں نے الزامات کی تردید میں امریکی حکام کے متعدد بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ بات اعلانیہ اور نجی طور پر بھی واضح کی ہے۔

ڈونلڈ لو پر سابق وزیر اعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کا الزام عائد کیا تھا، اس تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے گزشتہ برس اپریل میں وہ عہدے سے برطرف کردیے گئے تھے، اگرچہ امریکا نے ماضی میں عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی بارہا تردید کی ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی ڈونلڈ لو کا نام نہیں لیا۔

امریکی سائفر کا معاملہ

یاد رہے کہ گزشتہ سال برس مارچ میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔

اگرچہ انہوں نے ابتدائی طور پر دھمکی آمیز خط کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات فراہم نہیں کی تھیں لیکن اس کے بعد ناقدین کی جانب سے ان کے دعوے پر شک کرنے کی وجہ سے تھوڑی تفصیلات دیں۔

سابق حکومت نے ابتدائی طور پر اس خط کو چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ شیئر کرنے کی پیشکش کی، لیکن بعد میں وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے ارکان کو خط کے مندرجات سے بھی آگاہ کیا۔

خفیہ دستاویزات کے افشا ہونے پر قانونی پابندی کے پیش نظر صحافیوں کے ایک گروپ کو وزیراعظم کے ساتھ بات چیت کے دوران کابینہ کے اجلاس کے نکات فراہم کیے گئے تھے۔

اس ملاقات میں کسی غیر ملکی حکومت کا نام نہیں لیا گیا لیکن میڈیا والوں کو بتایا گیا کہ میزبان ملک کے ایک سینئر عہدیدار نے پاکستانی سفیر کو کہا تھا کہ انہیں وزیر اعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی، خاص طور پر ان کے دورہ روس اور یوکرین جنگ سے متعلق مؤقف پر مسائل ہیں۔

مبینہ طور پر یہ سفارتی کیبل 7 مارچ کو اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے اور اس پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے سے ایک روز قبل بھیجی گئی تھی۔

دریں اثنا علیحدہ طور پر یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ یہ سفارتی کیبل امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔

بعد ازاں پی ٹی آئی حکومت نے اس سفارتی کیبل کو اپنا اقتدار ختم کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے اس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلایا تھا۔

اجلاس میں مراسلے کو پاکستان کے معاملات میں ’کھلی مداخلت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا سفارتی طور پر جواب دینے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔

حکومت کی تبدیلی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوا تھا جس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی کو اعلیٰ ترین سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا ہے کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔

اجلاس کے دوران قومی سلامتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024