دہشت گردی کی نئی لہر اور پاکستان کے لیے چیلنجز
گزشتہ ہفتے ژوب کی فوجی چھاونی پر حملہ ہوا جس نے ہمیں سرحد پار دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خطرات سے ایک بار پھر خبردار کیا۔
طویل عرصے بعد ایک دن میں سیکیورٹی فورسز کا ہونے والا سب سے بڑا جانی نقصان یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عسکریت پسند اب زیادہ مسلح اور زیادہ تربیت یافتہ ہیں۔ اس ہائی پروفائل حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے ایک دھڑے نے قبول کی جس نے اپنے حملوں کا دائرہ خیبرپختونخوا سے بلوچستان تک پھیلا دیا ہے۔
اس خطے میں عسکریت پسندوں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنائے جانے کے سلسلے میں تیزی آئی ہے۔ بلوچستان کا ضلع ژوب جس کی سرحدیں جنوبی وزیرستان سے ملتی ہیں، اب شرپسند کارروائیوں کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ یہ رواں ماہ میں ژوب میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والا دوسرا حملہ تھا۔
رواں ماہ کے آغاز میں 2 جولائی کو دہشتگردوں نے اس علاقے کو خیبرپختونخوا سے منسلک کرنے والی ہائی وے پر واقع سیکیورٹی فورسز کی 3 چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔ اسی دن ضلع سوئی میں پیش آنے والے ایک اور واقعے میں دہشت گردوں سے فائرنگ کے مقابلے میں ایک فوجی اہلکار شہید ہوا۔
اس سے یہ خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے وہ دہشت گرد عناصر متحرک ہوگئے ہیں جن کے ٹھکانے سرحد پار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تانے بانے سرحد پار جا ملتے ہیں۔ لیکن یہ ماضی میں اپنائی گئی ہماری تباہ کُن پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔
گزشتہ سال ریاست کی جانب سے طالبان حکومت کے دباؤ میں کیے گئے امن معاہدے کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلح عسکریت پسندوں کو اپنے قبائلی علاقوں میں واپسی کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں کالعدم تحریکِ طالبان کو ایک بار پھر اس خطے میں متحرک ہونے کا موقع ملا اور یوں انہوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے انہیں 2016ء کے فوجی آپریشن میں نکال دیا گیا تھا۔
بہت سے شرپسند تو ان علاقوں میں واپس آچکے ہیں لیکن ان کی قیادت اب بھی افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں جہاں وہ طالبان حکومت کے تحفظ میں ہیں۔ اب ہمارا ملک دہشت گردوں کے آگے شرم ناک انداز میں ہتھیار ڈال دینے کی قیمت اپنے عوام کی جانوں کی صورت میں ادا کررہا ہے۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے دھڑوں کے ساتھ امن معاہدے کے بعد سے دہشت گرد حملوں میں کئی پاکستانی فوجی شہید ہوچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کے بعد، اب بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔
یہ سیکیورٹی ایجنسیوں کے لیے ایک سنگین معاملہ ہے کیونکہ وہ پہلے ہی صوبے میں بلوچ علحیدگی پسند گروہوں سے نبردآزما ہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں شمالی بلوچستان خصوصاً پختون اکثریتی علاقوں تک محدود ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ ٹی ٹی پی نے دیگر بلوچ علاقوں میں بھی اپنے قدم جمالیے ہیں۔
اس سے زیادہ تشویش ناک یہ اطلاعات ہیں کہ بلوچ علحیدگی پسند گروہوں اور ٹی ٹی پی نے مبینہ طور پر ہاتھ ملا لیے ہیں۔ یہ بات پریشان کُن ہے کہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری ایسے گروہوں نے قبول کی جن کا ٹی ٹی پی کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ یہ خطہ پہلے ہی بلوچ عسکریت پسندی کا شکار تھا۔ اس اتحاد نے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
حالیہ دہشت گرد حملوں سے یہ ظاہر ہوا کہ دونوں گروہ امریکا کی جانب سے افغانستان میں چھوڑے گئے جدید اسلحے سے لیس ہیں۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ غیرمحفوظ سرحدوں نے شرپسندوں کو آزاد نقل و حرکت کا موقع دیا ہے۔ سرحدی علاقے بھی اب سرحد پار متحرک عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ علاقے تصور کیے جانے لگے ہیں۔
افغان طالبان کے انکار کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ ٹی ٹی پی کو طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ ان عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیاروں کی دستیابی نے صورتحال کو انتہائی تشویش ناک بنا دیا ہے۔
واضح طور پر دہشت گردی کی حالیہ لہر جس کی ذمہ داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کی، اس سے افغان طالبان حکومت کے حوالے سے پاکستان کے موقف میں سختی آئی ہے۔
عسکری قیادت نے افغان حکومت کو پاکستان سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث دہشت گردوں کو پناہ دینے پر سختی سے خبردار کیا ہے۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں اور دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں دہشت گردوں کو کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے نہیں دے گی‘۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس طرح کے واقعات ناقابلِ برداشت ہیں جن پر پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے مؤثر جواب دیا جائے گا‘۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کی حکومت نے طالبان کی حکومت کو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف اقدامات کرنے پر زور دیا لیکن کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کے بجائے افغان طالبان نے پاکستان کی تنبیہ پر سخت ردِعمل دیا۔ طالبان کے ترجمان نے کہا کہ یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسائل سے نمٹے۔
دونوں فریقین کے درمیان لفظوں کی جنگ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ ایک کھُلے تنازعے کی صورت اختیار کررہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اقدامات نہ کیے جانے پر پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے۔ اگر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اور کالعدم گروہوں کے خلاف طالبان انتظامیہ نے اقدامات نہ کیے تو پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو سرحد پار بھی لے جاسکتا ہے جس کے حوالے تنبیہ بھی کی جارہی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان نے چند سرحد پار آپریشنز بھی کیے تھے جن میں افغانستان کے کُنڑ اور ننگرہار صوبوں میں موجود دہشت گرد قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکن اس طرح کے اقدامات کافی خطرناک ہوتے ہیں اور اس کے خطے کے امن پر سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے امتحان ہوگا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان رکاوٹوں کا کیسے مقابلہ کرتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان کو افغانستان سے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کو قابو کرنے کی ضرورت ہے لیکن اسے ایسی کارروائی کرنے میں احتیاط برتنی ہوگی جو وسیع تر انتشار کا باعث بنے۔ سرحد پار جوابی کارروائیوں سے افغان حکومت کا رویہ مزید سخت ہوسکتا ہے۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی عالمی برادری کے لیے بھی باعثِ تشویش ہے۔ لگتا ہے کہ طالبان حکومت اپنے وعدے سے پِھر گئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی دوسرے ملک کے خلاف کارروائی میں افغان زمین کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان حکومت کے ان شرپسند گروہوں کے ساتھ روابط نے دنیا اور خصوصاً خطے کے ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
ایسی صورت حال میں خطے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبان حکومت کو ان گروہوں کی سرپرستی کرنے سے روکا جاسکے جو خود افغانستان کی اپنی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
یہ مضمون 19 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔